ٹرمپ انتہائی مشکل میں؟ مواخذے کی کارروائی کا سنگین الزامات کے ساتھ کیسے ہوا آغاز؟ جان لیں اس خبر میں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فائل فوٹو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تاریخی مواخذے کی کارروائی کی سماعت کے دوران یوکرین میں تعینات امریکی سفیر نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے جو بائیڈن کے خلاف کارروائی کے لیے یوکرین پر دباؤ ڈالا تھا۔

یوکرین میں قائم مقام امریکی سفیر ولیم ٹیلر کارروائی کی سماعت کرنے والی ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر یوکرین سے زیادہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنے ممکنہ حریف کے خلاف تحقیقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیموکریٹک حریف اور نائب صدر جو بائیڈن کو نقصان پہنچانے کے لیے یوکرین کے صدر سے مدد طلب کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر کے مابین گفتگو کی ٹرانسکریٹ منظر عام پرآنے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عہدے اور اختیار کا غلط استعمال کرنے کے الزامات کے تحت مواخذے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیموکریٹک حریف اور نائب صدر جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کو نقصان پہنچانے کے لیے غیر ملکی قوتوں سے مدد طلب کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور اپنے ذاتی فوائد کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کا غیرقانونی استعمال کیا۔

الزامات کے مطابق رپبلکن صدر ٹرمپ نے یوکرین کی تقریباً 4 کروڑ ڈالر کی امداد روکی اور یوکرین میں توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرینی حکام پر دباؤ ڈالا۔

ٹرمپ نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور مواخذے کی کارروائی کو 'وچ ہنٹ' قرار دیا تھا۔

گزشتہ ماہ بند کمرے میں سماعت کے دوران گواہی دینے والے ولیم ٹیلر نے تازہ سماعت کے دوران مزید کہا کہ وہ اس وقت سے ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی یونین میں امریکی سفیر گورڈن سونڈ لینڈ کے درمیان ٹیلیفونک کال کے بارے میں جانتے ہیں جب سے اسے ان کے عملے کے ایک رکن نے سنا تھا۔

ٹیلر نے بتایا کہ عملے کے رکن نے ٹرمپ کو سونڈ لینڈ سے تحقیقات کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنا تھا اور عملے کے اس رکن نے ٹیلیفونک کال کے بعد سونڈ لینڈ سے پوچھا تھا کہ یوکرین کے بارے میں ٹرمپ کیا سوچتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سوال کے جواب میں سونڈ لینڈ نے جواب دیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے زیادہ بائیڈن کے خلاف کارروائی میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے لیے گیولیانی دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اپنے افتتاحی بیان میں ولیم ٹیلر نے سابقہ بیان کو پھر دہراتے ہوئے کہا کہ وہ بائیڈن کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے یوکرین کو فوجی امداد کو ہتھیار بنانے کے مخالف تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں مقامی سیاسی تحریک میں مدد کے لیے حفاظتی سہولیات روک لینا سراسر پاگل پن جیسا ہو گا، میرا پہلے بھی یہی ماننا تھا اور اب بھی یہی مانتا ہوں، نیویارک کے سابق میئر اور ٹرمپ کے ذاتی اٹارنی روڈی گیولیانی کا استعمال کرتے ہوئے ایک خلاف ضابطہ طریقے کے ذریعے یوکرین پر بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شف نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اقدامات ایسے لازم ہیں جیسے کہ صدر کا مواخذہ، اس مواخذے کی کارروائی کے دوران یہ سوالات رکھے گئے ہیں کہ کیا صدر ٹرمپ نے یوکرین کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور انہیں ہمارے الیکشن میں مداخلت کی دعوت دی؟ اگر یہ عمل قابل مواخذہ نہیں تو پھر کیا ہے؟ ۔

اس کے جواب میں مشہور ریپبلیکن ڈیون نونز نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ڈیموکریٹس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف باقاعدہ تباہ کن جنگ چھیڑنے اور میڈیا ٹرائل کرنے کا الزام عائد کیا۔

یورپ اور یوریشیا کے امریکی نائب سیکریٹری آف اسٹیٹ ٹیلر اور جیورج کینٹ پہلے ہی خفیہ طریقے سے ٹرمپ کے خلاف یہ گواہی دے چکے ہیں کہ امریکی صدر نے بائیڈن کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے یوکرین کے صدر کے صدر ولادمیر زلنسکی پر امریکی فوجی امداد کے ذریعے دباؤ ڈالا۔

کینٹ نے اپنے افتتاحی بیان میں کہا کہ میں یہ نہیں مانتا کہ امریکا کو اپنے مخالفین کے خلاف سیاسی طرز کی تحقیقات اور مقدمات میں دیگر ملکوں سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک سے قطع نظر اس طرح کے اقدامات قانون کی عملداری کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

اس سماعت کے آغاز سے چند منٹ قبل ایوان کی ڈیموکریٹک اسپیکر نینسی پلسی نے کہا کہا اس مواخذے کی کارروائی کا مقصد ٹرمپ کو یہ باور کرانا ہے کہ ایسا نہیں کہ وہ چاہیں وہ کر سکتے ہیں، وہ قانون سے بالاتر نہیں اور ان کا بھی احتساب یا جائے گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مواخذے کی کارروائی کو ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا جا رہا ہے جہاں کروڑوں امریکی ناظرین نے اس کارروائی کو براہ راست دیکھا اور ماپرین کا ماننا ہے کہ اس کے 2020 کے صدارتی انتخابات پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس سماعت پر ماہرین نے اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے دونوں فریقین کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس کے نتیجے میں امریکی عوام دو حصوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں اور اس کے صدارتی انتخابات پر مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

سماعت کے آغاز سے قبل مختلف اداروں کی جانب سے عوام سے رائے طلب کی گئی تھی جہاں رائے شماری میں امریکی عوام کی اکثریت نے صدر کے مواخذے کی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔

واضح رہے کہ امریکی تاریخ میں آج تک صرف دو امریکی صدور کا مواخذہ ہوا ہے، جن میں 1998 میں بل کلنٹن جبکہ 1868 میں اینڈریو جانسن کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا، ان دونوں صدور کو سینیٹ نے مواخذے کے باوجود الزامات ثابت نہ ہونے پر برطرف نہیں کیا تھا۔

تاہم 1974 میں صدر رچرڈ نکسن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جہاں واٹرگیٹ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

اگر ٹرمپ پر مواخذے کی کارروائی کے دوران یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو وہ مواخذے کی بنیاد پر برطرف کیے جانے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے۔

install suchtv android app on google app store