امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی کا فلوریڈا میں واقع اپنے نجی رہائش گاہ مارالاگو میں استقبال کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ میرا خیال ہے ہم بات چیت کے آخری مرحلے میں ہیں یا تو یہ جنگ ختم ہو جائے گی یا پھر یہ طویل عرصے تک جاری رہے گی جس کے نتیجے میں مزید لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ اب تک آٹھ جنگیں کامیابی سے ختم کروا چکے ہیں تاہم روس۔یوکرین جنگ سب سے مشکل ثابت ہو رہی ہے لیکن وہ پُرعزم ہیں کہ اسے بھی انجام تک پہنچائیں گے۔
جب ان سے اس ڈیڈ لائن کے بارے میں سوال کیا گیا جو انہوں نے روس اور یوکرین کو معاہدے کے لیے دی تھی تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی کوئی مخصوص ڈیڈ لائن نہیں ان کی واحد ترجیح جنگ کا خاتمہ ہے۔
امریکی صدر نے بتایا کہ دونوں صدور معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اور زیلنسکی سے ملاقات کے بعد وہ ایک بار پھر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے فون پر بات کریں گے تاکہ مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
ٹرمپ نے اس سے قبل اتوار کے روز پیوٹن کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو اچھی اور نہایت مفید قرار دیا تھا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایک مضبوط سیکیورٹی معاہدہ تیار کیا جا رہا ہے جس میں یورپی ممالک کا کردار کلیدی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک اس عمل میں بھرپور تعاون کر رہے ہیں اور امن معاہدے کے حق میں متحد ہیں۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس موقع پر کہا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات نے واشنگٹن اور کیف کے درمیان بات چیت کو آگے بڑھایا ہے اور وہ صدر ٹرمپ سے 20 نکاتی امن منصوبے پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
بعد ازاں دونوں رہنماؤں کے درمیان بند کمرہ ملاقات اور ظہرانہ بھی ہوا۔
امریکی وفد میں وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ، وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین، جیرڈ کشنر، امن کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف سمیت دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے۔
جبکہ یوکرینی وفد میں نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس کونسل کے سیکریٹری رستم عمروف بھی شریک تھے۔
واضح رہے کہ صدر زیلنسکی ہفتے کے روز کینیڈا کے دورے کے بعد امریکا پہنچے تھے، جہاں انہوں نے تقریباً چار سال سے جاری روس۔یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی منصوبے پر بات چیت کی تھی۔