ترکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور اور انٹیلی جنس چیف کو پاکستان بھیجنے کا اعلان

صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ اگلے ہفتے ان کا ملک ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا فائل فوٹو صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ اگلے ہفتے ان کا ملک ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ اگلے ہفتے ان کا ملک ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ افغان طالبان کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے پاکستان سے مشاورت کی جا سکے۔ ترک صدر کے مطابق اس وفد میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ دورے کا مقصد مستقل جنگ بندی اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کو حتمی شکل دینا ہے۔

ترکیہ کا یہ سفارتی اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی برقرار ہے۔ اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ایران نے بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے پاکستانی نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ ایران دونوں فریقین کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت بحال کرنے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

عباس عراقچی نے کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کو مذاکرات جاری رکھنے چاہیے تاکہ غلط فہمیوں اور اختلافات کا خاتمہ ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی امن کے لیے بات چیت ناگزیر ہے اور ایران ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔

پاکستانی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے لیے علاقائی امن و استحکام انتہائی اہم ہے، اور دونوں وزرائے خارجہ نے رابطے اور مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

دوسری جانب، ترجمان دفترِ خارجہ نے واضح مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کسی بھی صورت سمجھوتا نہیں کرے گا۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ انہوں نے دو ٹوک کہا کہ “فتنہ الہندوستان” اور “فتنہ الخوارج” سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان گزشتہ چار سال سے افغان طالبان رجیم کے ساتھ رابطے میں ہے اور مذاکراتی عمل میں سنجیدگی دکھا چکا ہے۔

تاہم افغان طالبان نے اصل مسئلے کے بجائے غیر متعلقہ نکات پر بات کی اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے کو مہاجرین کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔

ترجمان نے کہا کہ اگر وہ واقعی مہاجرین ہیں تو انہیں چمن یا طورخم بارڈر کے راستے واپس بھیجا جائے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان قطر اور ترکیہ کی ثالثی کا شکر گزار ہے، لیکن افغان طالبان حکومت نے نہ تو دہشتگرد گروہوں کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی سرحد پار حملوں کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات دور کیے۔

ترجمان نے کہا کہ طالبان حکومت محض جنگ بندی میں توسیع کی خواہش رکھتی ہے، جبکہ پاکستان خطے میں مستقل امن اور اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

install suchtv android app on google app store