سربراہ اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس نے افغان خواتین کے حقوق پر طالبان حکومت کی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بحران کا شکار ملک افغانستان میں استحکام کے حوالے سے عالمی برادری کے خدشات کا اظہار کیا۔
رپورٹس کے مطابق طالبان حکام کی جانب سے امدادی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے حوالے سے غور کیا جارہا ہے، تاہم انتونیو گوتیریس نے کہا کہ دوحہ میں 2 روزہ اجلاس کے شرکا افغانستان کی ان پالیسیوں کو تبدیل کروانے کے لیے مزید کوششیں کرنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا حتمی فیصلہ جمعے کو کیا جائے گا، جسے اقوام متحدہ نے ایک انتہائی مشکل فیصلہ قرار دیا ہے۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں میں ہم افغانستان میں رہ کر کام کرتے رہے ہیں، ہم امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے درکار حالات پیدا کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، اپنے ان مقاصد کے حصول کے سبب ہم لاتعلق نہیں ہو سکتے، اجلاس کے بہت سے شرکا نے افغستان کے ساتھ روابط کو زیادہ مؤثر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اانہوں نے افغان خواتین پر اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور این جی اوز کے لیے کام کرنے پر پابندی کے بعد طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔
ان پابندیوں پر عالمی برادری نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ اس سے قبل افغانستان میں خواتین پر ثانوی تعلیم اور یونیورسٹی میں داخلوں پر بھی پابندی لگائی جاچکی ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دوحہ میں افغانستان کے حوالے سے مختلف ممالک کے خصوصی سفرا کے ساتھ 2 روزہ اجلاس کا اہتمام کیا تھا جس کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے عالمی برادری کے درمیان باہمی اتفاق پیدا کرنا تھا۔
اجلاس میں چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، ایران، جاپان، قازقستان، کرغزستان، ناروے، پاکستان، قطر، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکیہ، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکا، ازبکستان، یورپی یونین اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے شرکت کی ہے جبکہ طالبان انتظامیہ کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
تاہم انتونیو گوتیرس نے کہا کہ وہ فی الوقت طالبان سے ملاقات کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اگر مستقبل میں ایسا کوئی امکان پیدا ہوا تو وہ ملاقات سے انکار نہیں کریں گے۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے دوحہ میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کے بارے میں کہا کہ اجلاس افغان حکومت کے نمائندوں کے بغیر غیرمؤثر ہے۔
سہیل شاہین نے فرانسیسی خبررساں ادارے کو دیے گئے ایک تحریری بیان میں کہا کہ ’دباؤ ڈالنے سے مسائل کے حل میں کوئی مدد نہیں ملتی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کو ہماری بات سننی چاہیے، ہمارے جائز حقوق سے انکار کر کے، ہمیں افغانستان سے متعلق اجلاسوں میں مدعو نہ کر کے یا ہماری بات نہ سن کر وہ نہ تو حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا قابل عمل حل تلاش کر سکتے ہیں جس کی فی الوقت ضرورت ہے۔
دریں اثنا سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے بتایا کہ دوحہ اجلاس میں موجود ممالک نے افغانستان میں انسانی حقوق، دہشت گرد تنظیموں کی مسلسل موجودگی اور منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے، شرکا افغانستان کے استحکام کے بارے میں فکر مند ہیں اور ان سنگین خدشات کا اظہار ررہے ہیں۔
انتونیو گوتیرس نے کہا کہ امدادی ایجنسی کی سرگرمیوں میں خواتین کا کردار اہم ہے جس پر ناقابل قبول پابندی انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انتونیو گوتیریس نے کہا کہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر بے مثال اور منظم حملوں پر کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔