ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ مختلف انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر مختصر ویڈیوز کا زیادہ استعمال ذہنی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ ٹک ٹاک، انسٹاگرام ریلز اور یوٹیوب شارٹس کو طویل وقت تک دیکھنے سے توجہ کی کمی، خود پر قابو کھونے اور ذہنی توازن میں بگاڑ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مختصر ویڈیوز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے محققین کو مجبور کیا ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ الگورتھم کے تحت چلنے والا یہ فارمیٹ انسانی دماغ پر کس طرح اثر ڈال رہا ہے۔
ٹک ٹاک سے لے کر انسٹاگرام ریلز اور یوٹیوب شارٹس تک، مختصر ویڈیوز تقریباً ہر پلیٹ فارم کا مرکزی حصہ بن چکی ہیں، حتیٰ کہ لنکڈ اِن اور سب اسٹیک جیسے پروفیشنل پلیٹ فارمز پر بھی یہ فیچر متعارف کرایا گیا ہے۔
امریکی جریدے این بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق، حالیہ مطالعات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ شارٹ ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں توجہ کی کمی، بے قابو روی اور ذہنی صحت میں بگاڑ جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
محققین اس صورتحال کے لیے عام طور پر لفظ ‘برین روٹ’ استعمال کرتے ہیں، جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 2024 کا سال کا لفظ قرار دیا تھا۔
ستمبر میں شائع ہونے والی ایک جامع جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مختصر ویڈیوز کا زیادہ استعمال ادراکی صلاحیتوں کو کمزور کرتا ہے، خاص طور پر توجہ میں کمی اور جلد بازی کی عادت پیدا کرتا ہے۔
اس رپورٹ میں 71 مطالعات شامل تھیں، جن میں تقریباً ایک لاکھ شرکاء نے حصہ لیا، اور اسے سائکولوجیکل بلیٹن میں شائع کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق شارٹ ویڈیوز کا استعمال ڈپریشن، بے چینی، تناؤ اور تنہائی کے بڑھتے ہوئے خدشات سے بھی جڑا ہوا ہے۔
اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں 14 مطالعات کا جائزہ لیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ شارٹ ویڈیوز کا مسلسل استعمال توجہ کی کمی کے ساتھ تعلیمی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔
اگرچہ اس سلسلے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابھی بہت سے سوالات کے واضح جوابات موجود نہیں ہیں۔
ونڈر بلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے نیورو سائیکولوجسٹ جیمز جیکسن کے مطابق، تاریخ میں نئی ٹیکنالوجیز کے خلاف ہمیشہ ردعمل رہا ہے، چاہے وہ ویڈیو گیمز ہوں یا کوئی اور ٹیکنالوجی، تاہم اس بار یہ تشویش مکمل طور پر بے بنیاد نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سوچنا کہ صرف بڑے بوڑھے لوگ اس کے بارے میں پریشان ہیں ایک انتہائی سطحی بات ہے۔ موجودہ تحقیق بتاتی ہے کہ شارٹ ویڈیوز کا حد سے زیادہ استعمال دماغ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آئندہ مزید تحقیق سے پتہ چلے گا کہ اس سے کون لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اثرات کتنے دیرپا ہیں اور ذہنی تبدیلیاں کیوں واقع ہوتی ہیں۔
امریکا میں اے ڈی ایچ ڈی (توجہ کی کمی اور زیادہ متحرک ہونے کی بیماری) کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ 2022 تک تقریباً ہر 9 میں سے 1 بچے کے اس سے متاثرہ ہونے کی تشخیص ہو چکی تھی۔
امریکا سمیت برطانیہ، اردن، سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک کی تحقیقات نے بھی توجہ میں کمی، یادداشت میں خلل اور ذہنی تھکاوٹ جیسے مسائل کا تعلق مختصر ویڈیوز کے زیادہ استعمال سے جوڑا ہے۔ تاہم موجودہ مطالعات قلیل مدتی مشاہدات پر مبنی ہیں۔
بچوں کے نفسیاتی امراض کی ماہر ڈاکٹر ندھی گپتا کا کہنا ہے کہ اس میدان میں زیادہ تر تحقیق نوجوانوں پر ہوئی ہے لیکن عمر رسیدہ افراد بھی خطرے کا شکار ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس فرصت کا وقت زیادہ ہوتا ہے اور وہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھی کم تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ جاننے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کہ ذہنی تبدیلیاں مستقل ہیں یا واپس پلٹ سکتی ہیں۔ ان کے بقول مختصر ویڈیوز ’ویڈیو گیمز اور ٹی وی سے بھی زیادہ طاقتور نشے‘ کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’شاید ابھی اسے ’عالمی تباہی‘ کہنا قبل از وقت ہو، مگر مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر اگلے پانچ سے دس سال میں ایسے شواہد سامنے آ جائیں جو موجودہ خدشات کی تصدیق کریں۔‘
ایک اور ماہر نفسیات کے مطابق شارٹ ویڈیوز کے مثبت پہلو بھی ہیں، جیسے سیکھنے کے مواقع اور آن لائن کمیونٹیز تک رسائی۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ ویڈیوز لوگوں کو صحت مند سرگرمیوں سے دور کر رہی ہیں، انہیں تنہا کر رہی ہیں، یا انہیں اس قابل نہیں چھوڑ رہیں کہ وہ کچھ دیر خاموش بیٹھ سکیں، تو یہ یقینی طور پر بڑا مسئلہ ہے۔‘