اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صرف موبائل فون یا انٹرنیٹ کمپنیاں ہی آپ کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، تو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اب آپ کی اپنی گاڑی بھی آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھ رہی ہے۔ جدید دور کی گاڑیاں دراصل "پہیوں پر دوڑتے کمپیوٹر" بن چکی ہیں جو نہ صرف آپ کے سفر بلکہ آپ کی آواز، چہرے کے تاثرات، عادتوں اور رویوں تک کا ڈیٹا محفوظ کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ کسی نئی جگہ کا پتا تلاش کرنے کے لیے نیوی گیشن سسٹم استعمال کرتے ہیں، تو گاڑی خاموشی سے آپ کا مقام ٹریک کر رہی ہوتی ہے۔
جب آپ سگنل پر رک کر سیٹ بیلٹ کھولتے ہیں یا گاڑی میں کوئی چیز اٹھاتے ہیں، تو سینسرز یہ سب نوٹ کر لیتے ہیں۔ اچانک بریک لگانا، تیز رفتاری یا گاڑی کی سمت بدلنا — سب کچھ ریکارڈ میں آ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، اگرچہ یہ نظام سہولت اور حفاظت کے لیے متعارف کرائے گئے تھے، مگر اب یہی ٹیکنالوجی صارفین کی پرائیویسی کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
گاڑیاں ڈیٹا کیسے اکٹھا کرتی ہیں؟
موذیلا فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق جب بات پرائیویسی کی ہو تو جدید گاڑیاں دنیا کی سب سے “خطرناک پروڈکٹ کیٹیگری” بن چکی ہیں۔
2023 میں کیے گئے تجزیے میں 25 مختلف آٹو برانڈز کی پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا اور معلوم ہوا کہ یہ کمپنیاں ڈرائیور کے تقریباً ہر عمل پر ڈیٹا جمع کرتی ہیں۔ جیسے اسٹیئرنگ موڑنا، دروازہ کھولنا، یا نیوی گیشن سسٹم استعمال کرنا۔
گاڑیوں میں موجود کیمرے، سینسر، جی پی ایس، سیٹلائٹ ریڈیو اور موبائل ایپلیکیشنز مسلسل معلومات ریکارڈ کرتے رہتے ہیں۔
سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ معلومات بعد میں کہاں جاتی ہیں کسی صارف کو نہیں پتا؟
ڈیٹا کہاں جاتا ہے؟
عام تاثر کے برعکس، یہ معلومات صرف کار ساز کمپنی کے پاس نہیں رہتیں۔ ماہرین کے مطابق ان میں سے بیشتر ڈیٹا انشورنس کمپنیوں، مارکیٹنگ اداروں اور خفیہ ڈیٹا بروکرز کو فروخت کیا جاتا ہے۔
امریکا میں جنرل موٹرز کو پانچ سال کے لیے اس بنیاد پر سزا دی گئی کہ اس نے ڈرائیورز سے اجازت لیے بغیر ان کے ڈیٹا، جیسے تیز رفتاری یا رات گئے ڈرائیونگ کو انشورنس کمپنیوں کے ساتھ شیئر کیا۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق سب سے پہلا قدم “آگاہی” ہے۔ گاڑی مالکان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی کار کیا کچھ ریکارڈ کر رہی ہے۔
ایک ویب سائٹ “Privacy4Cars.com” گاڑیوں کی “پرائیویسی رپورٹ کارڈ” فراہم کرتی ہے۔ آپ اپنی گاڑی کا وہیکل آئیڈینٹٰ فکیشن نمبر درج کریں تو یہ بتاتی ہے کہ گاڑی کون سا ڈیٹا جمع کرتی ہے اور وہ کہاں جاتا ہے۔
بعض کار ساز کمپنیاں جیسے ٹویوٹا، فورڈ اور بی ایم ڈبلیو ڈرائیورز کو اپنی گاڑی کی “ڈیٹا شیئرنگ سیٹنگز” بدلنے کی اجازت دیتی ہیں۔
مثال کے طور پر، ٹویوٹا کی ایپ میں “Master Data Consent” بند کیا جا سکتا ہے، جبکہ فورڈ کے صارفین فورڈ پاس ایپ سے ڈیٹا شیئرنگ روک سکتے ہیں۔
لیکن ایک قیمت بھی چکانی ہوگی
اگر آپ ڈیٹا شیئرنگ مکمل طور پر بند کر دیتے ہیں، تو کچھ فیچرز بھی متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر جی پی ایس ٹریکنگ بند کرنے سے گاڑی کا “روڈ سائیڈ اسسٹنس” یا دروازہ ریموٹ لاک کرنے کی سہولت غیر فعال ہو سکتی ہے۔
بی ایم ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اگر صارف مکمل طور پر ڈیٹا شیئرنگ سے انکار کرے تو گاڑی “فلائٹ موڈ والے فون” کی طرح بن جاتی ہے، یعنی کمپنی کے سرور سے کوئی ڈیٹا شیئر نہیں ہوتا۔
جب گاڑی بیچیں تو کیا کریں؟
جب آپ اپنی گاڑی بیچنے یا ٹریڈ اِن کرنے لگیں تو صرف چابی دینا کافی نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑی کو فیکٹری ری سیٹ ضرور کریں تاکہ تمام ڈیٹا، بشمول آپ کے موبائل کنیکشنز، حذف ہو جائے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ نئی گاڑی چلانے والا شخص آپ کے نام سے منسلک ڈیٹا استعمال کرے، جس سے آپ کے انشورنس ریکارڈ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
آج کی کار محض ایک سواری نہیں بلکہ ایک ڈیجیٹل آنکھ ہے جو آپ پر مسلسل نظر رکھتی ہے۔ سہولت اور پرائیویسی کے درمیان توازن قائم رکھنا اب ہر ڈرائیور کی اپنی ذمہ داری ہے۔
سمجھداری یہ ہے کہ گاڑی کی سیٹنگز جانچیں، ڈیٹا شیئرنگ پر نظر رکھیں، اور اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ بنائیں۔ ورنہ آپ کی کار خود آپ کے خلاف ثبوت بن سکتی ہے۔