پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی بھی ضمانت منظور، سکھر میں جیالوں کا جشن

پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ فائل فوٹو پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ

سکھر کی احتساب عدالت نے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت منظور کرلی۔

صوبہ سندھ کے شہر سکھر کی احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت ہوئی، جہاں پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو 5 روزہ عدالتی ریمانڈ پورا ہونے پر جج امیر علی مہیسر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کو این آئی سی وی ڈی ہسپتال سے ایمبولنس کے ذریعے عدالت لایا گیا، جہاں پیپلزپارٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔

دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے خورشید شاہ کے عدالتی ریمانڈ میں مزید 15 روز کی توسیع کی درخواست کی تاہم رہنما پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ کو سیاسی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کے خلاف کیس خارج کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ کو گرفتار کیے ہوئے 90 روز ہوچکے ہیں لیکن نیب نے کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کرسکا ہے، لہٰذا خورشید شاہ کے خلاف دائر کیس کو خارج کیا جائے۔

اسی دوران جج نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ 90 روز پورے ہوگئے ہیں اب تک ریفرنس کیوں نہیں پیش کیا جاسکتا، جس پرنیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ سمیت 18 افراد پر عبوری ریفرنس تیار کرکے منظوری کے لیے چیئرمین نیب کو بھیج دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ خورشید شاہ کے خلاف ایک ارب 24 کروڑ روپے کے شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں، 15 روز میں چیئرمین نیب کی منظوری سے ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا جائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے خورشید شاہ کی ضمانت منظور کرلی اور 50 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم جاری کردیا۔ علاوہ ازیں یہ بھی ہدایت دیں کہ جیسے ہی نیب ان کے خلاف ریفرنس دائر کرتا ہے انہیں عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔

واضح رہے کہ 18 ستمبر 2019 کو قومی احتساب بیورو نے قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا تھا۔ جس کے بعد ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا جبکہ بعدازاں اسے عدالتی ریمانڈ میں تبدیل کردیا تھا، تاہم دوران حراست طبیعت خرابی کے باعث خورشید شاہ کو ہسپتال بھی منتقل کیا گیا تھا۔

اس سے قبل 31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما پر ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلاحی پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اپنے فرنٹ مین یا ملازمین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔

نیب کے مطابق خورشید شاہ کے خلاف انکوائری میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (اے) اور شیڈول کے تحت بیان کردہ جرائم کے کمیشن میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

نیب ذرائع نے بتایا تھا کہ خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ ان دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے پہلاج رائے گلیمر بینگلو، جونیجو فلور مل، مکیش فلور مل اور دیگر اثاثے بھی بنا رکھے ہیں۔ اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔ اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

یاد رہے کہ خورشید شاہ بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، مریم نواز اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی اس طویل فہرست میں شامل ہیں جو کرپشن کے الزامات پر زیر حراست یا ضمانت پر ہیں۔

install suchtv android app on google app store