چوہدری برادران کی 36 گھنٹوں میں مولانا فضل الرحمٰن سے تیسری ملاقات مگر کیوں؟ حیران کن وجہ سامنے آگئی

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ فائل فوٹو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ نے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

دونوں رہنماؤں میں آزادی مارچ کے حوالے سے اپوزیشن کے حکومت سے جاری مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ واضح رہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ نے آزادی مارچ کے آغاز کے بعد سے مولانا فضل الرحمٰن سے متعدد مرتبہ مذاکرات میں معاونت کے لیے ملاقات کی ہے۔

گزشتہ روز حکومت مخالف آزادی مارچ کے حوالے سے مذاکرت کے لیے قائم کی گئی رہبر کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا تھا۔ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں فریقین کا کہنا تھا کہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس سے ایک روز قبل بھی دونوں کمیٹیوں کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ پہلے قدم میں کامیاب ہوئے ہیں اور مطالبات کا تبادلہ کیا گیا جو قیادت کے سامنے رکھے جائیں گے اور دوبارہ ملاقات ہوگی۔

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی نے کہا تھا کہ ‘پرویز خٹک کی قیادت میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آج تفصیلی بات ہوئی، ہم نے اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے جس کو انہوں نے سنا جبکہ اس کے علاوہ بھی گفتگو ہوئی’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘کل پھر ملاقات ہوگی، یہ ہمارے مطالبات اپنے بڑوں کے سامنے رکھیں گے اور دوبارہ آئیں گے تو پھر تفصیلی بات ہوگی’۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ ‘سب سے پہلے رہبر کمیٹی اور ساری اپوزیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی پاسداری کی اور ہمیں خوشی ہے کہ سیاسی لوگ آپس میں فیصلے کرتے ہیں تو اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اللہ کا شکر ہے کہ پہلے قدم میں ہم کامیاب ہوئے ہیں، آج ملاقات میں ان کے مطالبات اور جو مسائل تھے وہ ہم نے سنے اور اپنے مطالبات ان کے سامنے پیش کیے’۔

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔ اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔ ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔ علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

install suchtv android app on google app store