اسلام آباد آپریشن:مظاہرین سے جھڑپوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 200 افراد زخمی

فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا ختم کرانے کیلئے پولیس کی کارروائی اسکرین گریپ فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا ختم کرانے کیلئے پولیس کی کارروائی

 

فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران مظاہرین سے جھڑپوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 200 افراد زخمی ہوگئے جب کہ پتھراؤ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا، تاہم پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اسلام آباد کے علاقے آئی ایٹ فور میں آپریشن کے دوران مظاہرین کے پتھراؤ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا، جس کے سر پر چوٹ آئی تھی۔

آپریشن میں پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری حصہ لے رہی ہے، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔

شدید شیلنگ کے بعد مظاہرین منتشر ہونا شروع ہوگئے جبکہ پولیس نے درجنوں مظاہرین کو حراست میں بھی لے لیا۔

اطلاعات کے مطابق مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور غلیل کے ذریعے بنٹوں کا بھی استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

مظاہرین نے ایک ایف سی اہلکار کو پکڑ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا لیکن ساتھی اہلکاروں نے اسے فوری طور پر مظاہرین کے قبضے سے چھڑا لیا۔

مزید جانئیے: پیمرا کا تمام نیوز چینلز کو آف ایئر کرنے کا حکم، نشریات بند کردی گئیں

اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں میں 160 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا، جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

پمز اسپتال کے مطابق زخمیوں میں اسسٹنٹ کمشنر عبدالہادی اور ڈی ایس پی عارف شاہ بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب پولی کلینک اور بینظیر اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کرکے چھٹی پر موجود پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کو طلب کرلیا گیا۔

دھرنے کے مقام پر ایمبولینسز بھی پہنچا دی گئیں جبکہ آپریشن کی فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔

پولیس پانچ سمت سے کارروائی کرتے ہوئے مری روڈ، راولپنڈی روڈ، کھنہ پل، اسلام آباد ایکسپریس وے، جی ٹی روڈ کی جانب سے پیش قدمی کرکے فیض آباد کو مظاہرین سے خالی کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب مظاہرین نے 10 کے قریب گاڑیوں کو آگ لگادی جبکہ بارہ کہو کے مقام پر مری جانے والے راستے اور کنونشن سینٹر پر مری آنے جانے والے راستے کو بھی بند کردیا۔

مشتعل مظاہرین نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا، جبکہ وزیر داخلہ کے گھر سے نکلنے والی بکتر بند گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔

فیض آباد اور ملحقہ علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد آپریشن کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور دھرنے

پولیس کی شیلنگ سے قریب موجود دفاتر میں کام کرنے والوں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ مری روڈ پر اسکول بند کروا دیئے گئے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت 'تحریک لبیک'کے دھرنے کو آج 20 روز ہوگئے، جسے ختم کرانے کے لیے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔

دھرنے کے شرکاء وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر بضد تھے جب کہ حکومت کا مؤقف ہےکہ سڑکوں پر بیٹھ کر یا دھونس دھاندلی سے کسی سے استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا۔

ضلعی انتظامیہ کی ڈیڈ لائن ختم

گذشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین دن میں دھرنا پریڈ گراؤنڈ منتقل کرنے کے حکم کےبعد ضلعی انتظامیہ نے دھرنے کے شرکاء کو آخری وارننگ جاری کی تھی۔

ضلعی انتطامیہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دھرنے کے شرکاء 2 ہفتے سے غیر قانونی طور پر فیض آباد میں بیٹھے ہیں، پہلے بھی شرکاء کو تین وارننگ کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں لہٰذا شرکاء رات 12 بجے تک فیض آباد خالی کردیں۔

انتظامیہ کی وارننگ میں مزید کہا گیا تھا کہ ہائیکورٹ کے حکم پر پریڈ گراؤنڈ جلسے اور جلوسوں کے لیے مختص ہے، دھرنے کے شرکاء 2 ہفتے سے مسلسل قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں اس لیے جمعے کی رات 12 بجے تک فیض آباد خالی نہ کیا گیا تو ایکشن ہوگا اور آپریشن کی صورت میں تمام ذمے داری دھرنے کے قائدین اور شرکاء پر ہوگی۔

تاہم گذشتہ رات 12 بجے کی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہے، جس کے بعد پولیس نے دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا۔

’مجمع ہتھیار استعمال کرے تو پولیس بیک اپ استعمال کرے‘

سابق آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان کا کہنا کہ پولیس کے پاس دھرنے سے نمٹنے کا طریقہ کار موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مجمع ہتھیار استعمال کرے تو پولیس کو بیک اپ کا استعمال کرنا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ 2014 میں جب پارلیمنٹ میں حملہ ہوا تھا تو پولیس کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔

طاہر عالم نے کہا کہ حکومت خوف زدہ ہے تاہم حکمرانوں کو یہ بیان نہیں دینا چاہیے کہ طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ احسن اقبال معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے انتظامیہ کو نمٹنے دیں۔

عوام شدید مشکلات سے دوچار

حکومت اور دھرنے کے شرکا کے درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہونے سے شہریوں کی اذیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

کئی اہم شاہراہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستوں پر ٹریفک جام جیسے مسائل کا سامنا ہے، گذشتہ کئی روز سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جب کہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شدید پریشان ہیں۔

اسکول و کالج جانے والے طلبا و طالبات کو طویل سفر طے کرکے اپنی منزل پر پہنچنا پڑتا ہے، اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شدید پریشان ہیں۔

گذشتہ روز چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر کی سربراہی میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دھرنے کے شرکاء کے راستے محدود کرنے پر غور کیا گیا جبکہ فیصلہ کیا گیا کہ فیض آباد پل کے گرد اسٹریٹ لائٹس بھی بند کردی جائیں گی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے گزشتہ سماعت پر دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے حکومت کو 2 روز کی مہلت دی تھی اور جمعرات (23 نومبر) کو حکومت نے دھرنا ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرنا تھا، تاہم گذشتہ روز جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث سماعت نہیں ہوسکی تھی۔

آج سماعت کے بعد عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سیکٹر کمانڈر کو بھی 27 نومبر کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔

install suchtv android app on google app store