پاناما کیس: سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا

 سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل نا قرار دیتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے جو 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے گی۔

سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں جسٹس آصف سعید کھوسہ پاناما کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ فیصلہ 547 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں سب نے اپنی رائے دی ہے۔ امید ہےجو بھی فیصلہ ہوگا عدالت میں جذبات کا اظہار نہیں کیا جائے گا۔

پاناما کیس فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے تحریر کیا ہے، بینچ میں شامل 5 میں سے 2 فاضل ججوں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا جب کہ دیگر 3 جج صاحبان نے اس معاملے کی تحقیقات کی رائے کا اظہار کیا ہے۔ قانون کی رو سے 3 ججوں کا فیصلہ نافذالعمل ہوگا۔

مزید جانئیے: سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کی ضرورت ہے کہ رقم کیسے قطر منتقل ہوئی، حسن اور حسین نواز نے لندن میں فلیٹ کیسے خریدے، اثاثہ جات جدہ سے کیسے منتقل ہوئے،کیا حماد بن جاسم کاخط حقیقت پر مبنی ہے، چیئرمین نیب اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے، ان کی ناکامی پر جے آئی ٹی بنائی جائے، جے آئی ٹی میں نیب اور ملٹری انٹیلی جنس سمیت تمام تحقیقاتی ادارے شامل ہوں گے۔

جے آئی ٹی دوماہ میں تحقیقات مکمل کرے گی، چیف جسٹس خصوصی بینچ تشکیل دیں گے، جے آئی ٹی ہر دو ہفتے بعد اس بنچ کے سامنے رپورٹ پیش کرے، رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

لیگی رہنماؤں کا 'جیت' کا اعلان

پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے فیصلے کو اپنی 'جیت' قرار دیتے ہوئے 'گو عمران گو' کے نعرے لگائے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، ہم سرخرو ہوئے ہیں، عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا ہے، مزید تحقیقات کی جائیں جبکہ یہی بات 6 ماہ قبل خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لگتا نہیں کہ پاناماکیس کا فیصلہ شریفوں کے خلاف آئے گا: بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ مخالفین نے جو شواہد پیش کیے، وہ ناکافی تھے، ان کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون اور عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔

سعد رفیق نے مزید کہا کہ آج ثابت ہوگیا کہ 'وزیراعظم صادق بھی ہیں اور امین بھی'۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے International Consortium of Investigative Journalists کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

یہ خبر بھی پڑھیں: پاناما کیس کے فیصلے میں تاخیرکا کوئی جواز نہیں: اعتزاز احسن

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ملکی سیاست میں ہلچل اور سپریم کورٹ میں کارروائی

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کیا اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے رضامند ہیں، تاہم اس کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا۔

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں دی گئی تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف نے ایوان میں متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

مزید جانئیے: پاناما کا فیصلہ برصغیر کی تاریخ کا بڑا فیصلہ ہو گا: شیخ رشید

پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

ابتداء میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر اعتراضات لگاکر انھیں واپس کردیا، تاہم بعدازاں 27 ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے دائر تمام درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلیں۔

20 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعد ازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

پہلے پہل سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی، تاہم 31 دسمبر 2016 کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔

مزید پڑھیں: پاناما پیپرز لیکس کی کہانی

رواں برس 4 جنوری سے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی نئے لارجر بینچ نے پاناما کیس کی درخواستوں کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو ضرورت پڑی تب بھی ان کے کام نہیں آؤں گا: آصف زرداری

بعدازاں جج جسٹس آصف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

واضح رہے کہ اس فیصلے کو عوام کے سامنے لانے میں 57 دن کا وقت لگا ہے۔

install suchtv android app on google app store