پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 13 حلقوں میں جاری ضمنی انتخابات کے دوران پولنگ کے دوران کشیدگی اور الزام تراشی سامنے آئی۔ این اے-129 میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ایم پی اے مون جاوید اور پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے پولنگ کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
حماد اظہر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر فراہم کی گئی بیلٹ پیپر کی کتابیں حقیقی تعداد سے کم نکلی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر نعمان مجید سمیت 11 کارکنان کو گرفتار کر کے شیراکوٹ تھانے منتقل کیا گیا ہے۔
مون جاوید نے کہا کہ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز پر ان کے نمائندوں کو داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے اور ہر جگہ شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب، پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کے خالی پولنگ کیمپس کی ویڈیوز جاری کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے پولنگ کیمپس میں ووٹرز کی کثیر تعداد کا ذکر کیا۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ عوامی خدمات جیسے 1 لاکھ 10 ہزار گھروں کی تعمیر، 3 لاکھ مریضوں کو مفت ادویات، 20 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں، 18 ہزار کسانوں کو ٹریکٹرز، 25 ہزار الیکٹرک بائیکس، 50 ہزار اسکالرشپس، اور جدید بس سروسز کی وجہ سے لوگ مسلم لیگ ن کو ووٹ دیں گے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ شکست خوردہ جماعتیں پولنگ اور نتائج سے قبل دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں، حالانکہ عوام اب خدمت کی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے بھی پولنگ کی نگرانی کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ فیصل آباد میں ووٹرز کی بیلٹ پیپر کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی رپورٹس کے بعد کنٹرول روم نے سیکیورٹی اہلکاروں کو ہدایات جاری کیں۔
پولنگ اسٹیشن پر موبائل فون کے استعمال پر پابندی ہے تاکہ ووٹ کی رازداری برقرار رہے۔ پریزائیڈنگ افسران اور عملے کو مکمل نگرانی کی ہدایات دی گئی ہیں اور ووٹرز سے کہا گیا ہے کہ وہ موبائل فون پولنگ اسٹیشن میں نہ لائیں۔
ضمنی انتخابات پنجاب کی سات اور قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر ہو رہے ہیں اور پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہو کر شام پانچ بجے تک جاری رہے گی۔
الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں کنٹرول روم قائم کیا ہوا ہے، جس کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہارون شنواری کر رہے ہیں۔