اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، فپواسا کا حکومت سے مطالبہ

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) اورفپواسااسلام آباد چیپٹر نے نیشنل پریس کلب اسلام اباد میں پریس کانفرنس کر رہےہیں فائل فوٹو فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) اورفپواسااسلام آباد چیپٹر نے نیشنل پریس کلب اسلام اباد میں پریس کانفرنس کر رہےہیں

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) اورفپواسااسلام آباد چیپٹر نے نیشنل پریس کلب اسلام اباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مالی سال 2024-2023 میں حکومت پاکستان نے تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا محض 1.6 فیصد مختص کیا جو خطے میں سب سے کم تھا۔ اس مختص کردہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کوجی ڈی پی کا صرف %0.44 (ریکرنگ گرانٹ) گرانٹ کے طور پر ملا۔ جبکہ مالی سال 2019-2018 سے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ریکرنگ گرانٹ 65 بلین روپے پر رک گئی ہے اور اس میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 2018 سے گیس بجلی، پیٹرول ڈیزل اور دیگر سہولیات کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ۔ بڑھتی مہنگائی کے اس تناسب نے ملک بھر کی یونیورسٹی کے اخراجات پر شدید بوجھ ڈال دیا ہے۔

اس تمام تر سنگین صورتحال اور نتائج کو بھانپتے ہوئے فپواسا نے کہا کہ پاکستان میں موجودہ حکمران سیاسی جماعتوں نے اپنے 2024 کے منشور میں تعلیم کے شعبے کو درپیش مالی مسائل کا اعتراف کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں تعلیمی اخراجات کو جی  ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھانے، وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر تعلیم کے لیے بجٹ میں مختص رقم بڑھانے اور یونیورسٹیوں کو ضرورت اور کارکردگی کی بنیاد پر گرانٹس فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں بھی جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا۔

ان وعدوں کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں تعلیم کو بالعموم اور اعلیٰ تعلیم کو بالخصوص نہ صرف اپنے منشور بلکہ اسے قومی فریضہ سمجھ کر سپورٹ کریں۔ یہ فنڈنگ یونیورسٹیوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے، اعلیٰ معیار کی تعلیم کی حمایت، اور جدید تحقیق کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے برعکس ہمارا پڑوسی ملک تعلیمی بجٹ میں 19 فیصد اور بنگلہ دیش چالیس فیصد اضافہ کر رہا ہے۔ ان ملکوں نے گزشتہ دس برسوں میں اپنے تعلیمی بجٹ میں چھ سو گنا اضافہ کیا ہے اور ہم نے اس عرصہ میں چھیاسٹھ فیصد کمی کی ہے۔

فپواسا کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مالیاتی ڈویژن کو 24 مئی 2024 کو لکھے گئے خط میں آئندہ مالی سال کے بجٹ برائے 25-2024 میں اعلی تعلیم کے بجٹ میں لگائے جانے والے کٹ اور صرف وفاقی چارٹرڈ یونیورسٹیوں کے لیے مختص کیے جانے والے تقریباً 25 بلین روپے کے بجٹ پر انتہائی گہری تشویش کا اظہار کیا- حکومت کا یہ قدم قومی سطح پر تعلیم کے لیے عدم دلچسپی اور اعلی تعلیم کے ساتھ بدسلوکی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کٹوتی کے بعد صوبوں کو بھی وفاقی مالی امداد سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ہم اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ بجٹ کٹوتی کے اس خط کو فی الفور منسوخ کیا جائے اور تعلیمی فنڈنگ کو جی ڈی پی کے %4 سے %5 تک بڑھایا جائے۔

پورے پاکستان کی جامعات کے پروفیسرز کی نمائندہ ایسوسی ایشنز اور فیکلٹی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہوں میں 2021 سے لے کر اب تک بتدریج 60 فیصد اضافہ ہوا ، اس کے باوجود ٹینور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) فیکلٹی کی تنخواہوں میں کوئی نظرثانی نہیں ہوئی۔ ٹی ٹی ایس سسٹم کو پاکستان میں 2007 میں متعارف کرایا گیا تاکہ نوجوان فیکلٹی کو مسابقتی، کارکردگی پر مبنی تنخواہ و پیکجز کے ساتھ راغب اور برقرار رکھا جا سکے، اور انہیں پنشن سمیت دیگر مراعات اورڈیتھ/ وزیراعظم کے امدادی پیکج سے محروم رکھا گیا۔ پالیسی کے
مطابق، ٹی ٹی ایس کی تنخواہوں میں ہر تین سال بعد نظر ثانی کی جانی چاہیے تھی لیکن گزشتہ 17 سال میں اب تک صرف تین بار (2021-2015-2011) اس پر نظر ثانی کی گئی۔ مزید برآں، فیکلٹی کے لیے ٹیکس چھوٹ جو کہ %75 تھی پچھلی حکومتوں نے کم کر کے %25 کر دی۔

فپواسا نے فوری طور پر چیئرمین ایچ ای سی، وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے اپیل کی کہ وہ اعلی تعلیم کے شعبے، جامعات اور فکیلٹی کو درپیش سنگین مسائل کی طرف خصوصی توجہ دیں اور آنے والے مالیاتی بحران کو کم کرنے کے لیے اعلی تعلیم کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کریں۔

اعلی تعلیم کے بجٹ میں اضافہ ملکی جامعات کے اعتماد کو بحال کرے گا ۔فپواسا نے اپیل کی کہ سیاسی جماعتں اپنے منشور کے مطابق تعلیم کے لیے بجٹ میں جی ڈی پی کا 4 سے 5 فیصد اضافہ کریں۔ مزید یہ کہ ٹی ٹی ایس کی تنخواہوں میں ایک بار 60 فیصد اضافہ کرنے اور اسے سالانہ بجٹ میں اضافے سے منسلک کرنے، پنشن پلان کو برقرار رکھنے اور ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کے لیے ڈیتھ/وزیراعظم امدادی پیکج میں توسیع اور موجودہ ٹیکس میں 75 فیصد چھوٹ کا مطالبہ کیا۔ جبکہ فپواسا نے بی پی ایس فکیلٹی ممبران کی تنخواہوں میں بھی %50 اضافے کا مطالبہ کیا تاکہ مہنگائی کی وجہ سے پاکستانی جامعات کے فکیلٹی ممبران کو درپیش مسائل کو کم کیا جاسکے۔ مزید بی پی ایس فیکلٹی کو اگلے کیڈرز پر مقابلہ کرنے کا منصفانہ موقع دیا جانا چاہیے اور ان کی بروقت ترقیوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

فپواسا کے نمائندگان نے حکومت سے ملک بھر میں وائس چانلسرز کی تقرریوں کو جلد از جلد مکمل کرنے اور تعلیمی ایمرجینسی پر عمل کرتے ہوئے اعلی تعلیم پر توجہ کی درخواست کی۔ اگر اس شدید مالی بحران پر قابو نہ پایا گیا تو ملکی جامعات کا بند ہونے کا اندیشہ ہے جس سے ملک کے مستقبل یعنی نوجوانوں اور پروفیسرز میں مایوسی کی لہر دوڑے گی جسے واپس لانا نامکمن ہوگا۔
فپواسا کے نمائندگان کامزید کہنا تھاکہ اگر حکومت نےاپنا نوٹیفیکیشن فوراً واپس نہیں لیا اور ہمارے مطالبات پورے نہ کیے تو پورے پاکستان سے تمام اساتذہ اور باقی ملازمین اگلے ہفتےسے اسلام آباد میں ہڑتال اور دھرنا دیں گے،جو کہ ہماری مانگیں پوری ہونے تک جاری رہے گا۔

فپواسا پاکستان تمام صوبائی حکومتوں سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ صوبائی بجٹ میں جامعات کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کریں کیونکہ اختیارات کی منتقلی کے بعد صوبے آئینی طور پر پابند ہیں کہ اعلی تعلیم کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ برابری کے تحت اٹھائے۔

پریس کانفرنس کی میزبانی فپواسا اسلام آباد چیپٹر نے کی جس میں فپواسا اسلام چیپٹر کے صدر ڈاکٹر اقبال جتوئی اور سیکرٹری ڈاکٹر محمد جدون اور دوسرے عہدیداروں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا چیپٹر کے صدر ڈاکٹر محمد ہمایوں اور نائب صدر ڈاکٹر فضل واحد اور دوسرے عہدیداروں نے شرکت کی۔

install suchtv android app on google app store