سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے: چیف جسٹس

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس: چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنیچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ فائل فوٹو ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس: چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنیچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنیچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔

بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نےکہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔

اس موقع پر عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے،کیا کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں؟

اس پرجسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنے تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں ہیں تو ایک ہائی کورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی تھی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔

تب چیف جسٹس پاکستان نے معاون سے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی؟ خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہے؟ ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے تو ہمیں وہ مواد دکھا دیں، مارشل لا نافذ تھا صرف یہ کافی نہیں ہے۔

عدالتی معاون نے بتایا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں؟

واضح رہے کہ 20 فروری کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں؟

انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے؟

عدالتی معاون نے دلیل دی کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا کہ کوئی تعصب کا شکار ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔

مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے مزید دریافت کیا کہ کیا ہم اس پہلو کو نظرانداز کر سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی تھی۔

install suchtv android app on google app store