سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ نے 90 روز میں عام انتخابات کے کیس کے فیصلے میں اضافی نوٹ جاری کردیا اور کہا ہے کہ صدر مملکت کی ذمہ داری تھی کہ وہ یقینی بناتے کہ عوام ووٹ کے حق سے 90 روز سے زیادہ محروم نہ رہتے۔
جسٹس اطہر من اللہ 90 روز میں عام انتخابات کے حوالے سے دائر درخواست پر فیصلہ سنانے والے تین رکنی بینچ کا حصہ تھے، جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کر رہے تھے اور ان کے ساتھ تیسرے جج جسٹس امین الدین خان تھے۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے رواں ماہ کے شروع میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے پر درخواست نمٹادی تھی اور تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات منعقد کرانے سے متعلق نوٹیفکیشن جمع کرانے کہا تھا کہ یہ حتمی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے 41 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا اور کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کردہ فیصلہ پڑھا اور مجھے حقائق دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک اضافی نوٹ تحریر کیا جائے۔
اضافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جسٹس نے کہا کہ پاکستانی ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیا دی حقوق کے منافی ہے، آئین اور قانون کے بر خلاف نگران حکومتوں کے ذریعے امور چلائے جا رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، انتخابات نہ کروا کر عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہو چکی اور12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا۔
نوٹ میں انہوں نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کے سدباب کے لیے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 7 نومبر کو عام انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضہ تھا۔
انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نوٹ میں لکھا کہ انتخابات کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 کی شق 5 کے تحت صدر مملکت کا ہی اختیار ہے، یہ یقینی بنانا صدر مملکت کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کے حق سے 90 دن سے زیادہ محروم نہ رہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا، 90 روز میں انتخابات نہ کرنے کی آئینی اور عوامی حقوق کی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر صدر مملکت یا گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تھے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا، الیکشن کمیشن کو آئین بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا کہ صدر مملکت اور گورنرز کو اپنے منصب کے مطابق غیرجانب دار رہنا چاہیے جبکہ صدر یا گورنرز کی جانب سے ایکشن نہ لینے پر الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔
انہوں نے لکھا کہ عام انتخابات کے انعقاد میں 90 دن سے زیادہ ایک دن کی تاخیر بھی سنگین آئینی خلاف ورزی ہے، آئینی خلاف ورزی اب ہو چکی اور اس کو مزید ہونے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے میں صدر نہ ہی الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
خیال رہے کہ یاد رہے کہ 2 اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی تھی اور اس دوران 8 فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اس ملاقات کے حوالے سے ایوان صدر نے بتایا تھا کہ ’ تفصیلی بحث کے بعد اجلاس میں متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو کرانے پر اتفاق کیا گیا ہے’۔
اگلے روز 3 نومبر کو سپریم کورٹ نے اس اتفاق رائے کی روشنی میں ملک بھر میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کی درخواست نمٹادی تھی اور فیصلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا تھا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ انتخابات کی تاریخ ہم نے دی ہے، اظہار رائے سے متعلق آرٹیکل 19 تو موجود ہے لیکن آئین پر عمل داری بھی ہر شہری پر فرض ہے، ان شااللہ ہر کوئی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ آج سے پندرہ سال قبل 3 نومبر 2007 کو آئین کی خلاف ورزی ہوئی، چاروں صوبوں اور اسلام کی طرف سے ملک کے لا افسران نے نمائندگی کی، تمام لا افسران نے انتخابی تاریخ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، توقع ہے کہ تمام تیاریاں مکمل کرکے الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرے گا۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پرکوئی اعتراض نہیں کیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے پورے ملک کی تاریخ دے دی، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا، انتخابات ان شااللہ 8 فروری کو ہوں گے، ہم نے انتخابات کے انعقاد کے لیے سب کو پابند کر دیا، کوئی رہ تو نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ میڈیا پر انتخابات کے حوالے سے مایوسی پھیلانے پر اٹارنی جنرل پیمرا کے ذریعے کارروائی کروائیں، اگر میں زندہ رہا تو میں بھی یہ ہی کہوں گا، اگر کسی سے فیصلے نہیں ہو پا رہے تو وہ گھر چلا جائے، اگر میڈیا نے شکوک شبہات پیدا کیے تو وہ بھی آئینی خلاف ورزی کریں گے، آزاد میڈیا ہے ہم ان کو بھی دیکھ لیں گے۔
سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کے معاملے پر کہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو شام کو ٹی وی پہ یہ خبر چلے کہ پتا نہیں کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں، میڈیا میں انتخابات نہ ہونے کی خبریں چلنے سے عوامی رائے متاثر ہوتی ہے، انتخابات کے انعقاد سے متعلق شکوک و شبہات والی منفی خبریں چلیں تو پیمرا کارروائی کے لیے موجود ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے، صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں، صدر مملکت اعلیٰ عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔
حکم کے مطابق تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں، صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186 آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے، ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر عملداری اختیاری نہیں، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
مزید کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا، یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی نہیں ہوں گے، یہ آئین کی اسکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف سہولت کار کے طور پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کا کہہ سکتی ہے۔