خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کمیٹی کے اجلاس میں معاشی ترقی کے لیے روڈ میپ وضع

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کمیٹی کا اجلاس فائل فوٹو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کمیٹی کا اجلاس

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں معاشی اور انتظامی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور ملکی معیشت کی ترقی کیے لیے روڈ میپ وضع کیا گیا۔ اجلاس میں نگران وفاقی کابینہ، صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور متعلقہ اعلیٰ سول اور عسکری حکام نے شرکت کی۔

وزیرِ اعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کا پانچواں اجلاس منعقد ہوا جہاں ملک کی معاشی بحالی، کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے فروغ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں نگران وفاقی کابینہ، صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور متعلقہ اعلیٰ سول اور عسکری حکام نے شرکت کی۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزرا نے متعلقہ شعبوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی اور ملک میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹوں کے سدباب کے لیے لائحہ عمل سے آگاہ کیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ اجلاس میں معاشی اور انتظامی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور ملکی معیشت کی ترقی کیے لیے روڈ میپ وضع کیا گیا۔

مزید بتایا گیا کہ اجلاس کو قواعد مؤثر اور تیز بنانے کے جامع پلان پر بھی بریفنگ دی گئی اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے قلیل، وسط اور طویل مدتی منصوبہ بندی پر مشاورت ہوئی۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اس حوالے سے عملی اقدامات کی منظوری دی اور ہدایت کی کہ ان پر عمل درآمد مقررہ مدت میں یقینی بنایا جائے اور وزرا ان اقدامات پر عمل یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کی قلیل مدت کے باوجود ہمیں معاشی بحالی کے منصوبے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے اور ان اقدامات کے نفاذ سے آئندہ منتخب حکومت کو بھی ملکی معیشت کی بحالی کے پروگرام پر عمل درآمد میں آسانی ہوگی۔

اجلاس کے بعد نگران کابینہ کی وزیر خزانہ، کامرس اور پیٹرولیم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا احترام کرتی ہے اور ان پر عملدرآمد جاری رکھیں گے لیکن اگر ان معاہدوں کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور ان کی وجہ سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے تو اس حوالے سے بھی اجلاس میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔

ان کا کہنا تھاکہ اجلاس میں درآمد پر کام کرنے، ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ اور اصلاحات، نقصان پہنچانے والے ریاستی اداروں کی نجکاری اور کارکردگی بہتر بنانے پر بھی گفتگو ہوئی، ملک میں جاری زرمبادلہ کے ذخائر اور اجناس سمیت ہر طرح کی اسمگلنگ پر بھی گفتگو ہوئی۔

نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ ہم نے ایک اصول اپنایا ہے کہ ہم پورے ملک کو دیکھیں گے اور ایک ٹیم کی طرح کام کریں گے جس میں شعبے ایک ساتھ مل کر کام کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی، ایکنک سمیت کابینہ کی تمام ذیلی کمیٹیوں کو ادارہ جاتی شکل دی جا چکی ہے اور ملک میں میکرو اکنامک مینجمنٹ کے فروغ اور اس سلسلے میں روڈمیپ تیار کرنے کے لیے اپنی مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔

اس موقع پر وزیر کامرس گوہر اعجاز نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ 2022 میں پاکستان کی 78ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمدات ہوئی تھیں اور 32ارب ڈالر کی ریکارڈ برآمدات بھی ہوئی تھی جس سے ہماری تجارت کا مجموعی تخمینہ 110ارب ڈالر بنتا تھا، اس 78 ارب کے مقابلے میں ہمیں برآمدات اور ترسیلات زر کی مد میں 55 سے 56 ارب ڈالر ملے تو پچھلے سال حکومت پالیسی اپناتے ہوئے امپورٹس کو کنٹرول کیا اور درآمدات کو کم کر کے 55 ارب ڈالر تک لے آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ درآمدات میں کمی سے خام مال اور ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس ساڑھے تین ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ ساتھ دیگر بھی کمی آئی اور اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 30ارب ڈالر کی مارکیٹ سکڑی، آج ہمارا موقف تھا کہ ہمیں منڈیوں کو کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ صنعت بند ہونے سے چیزیں مہنگی ہو گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آج توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ کس طرح سے کام کے قابل بنایا جائے تاکہ ملک میں جاری مہنگائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے جس کی بڑی وجہ سپلائی چین میں کمی تھی، جب درآمدات بڑھیں گی تو ایکسپورٹس کی صنعت کو اس کو پورا کرنا ہو گا اور اب ہمیں اپنی برآمدات 5ارب ڈالر سے بڑھانی ہیں تاکہ ہمارے ہاں نوکریاں پیدا ہوں۔

وزیر کامرس نے کہا کہ ہمیں صنعتوں کو ترجیح دینا ہو گی کیونکہ صنعت چلے گی تو ملک کا پہیہ چلے گا اور ملک کا کاروبار بڑھے گا، مہنگائی کا بحران بھی درآمدات بڑھانے سے کم ہو سکتا ہے، 300 کا ڈالر بھی 250 کا ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اس بات پر بھی گفتگو ہوئی کہ اسگلنگ سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے لہٰذا اسے کنٹرول کرنا ہے اور ملک کے نظام کے تحت اسمگلنگ کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جائے۔

دوران پریس کانفرنس وزیر توانائی محمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج اجلاس میں بجلی کی قیمت پر قابو پانے کے حوالے سے کافی گفتگو ہوئی ہے، ڈسٹری بیوشن کی گورننس بہتر بنانے پر بھی بات ہوئی اور پاور پلانٹس کی جانب سے براہ راست صنعتوں کو بجلی کی فراہمی پر بھی گفتگو کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے کہ ہمیں گیس کے شعبے میں سالانہ 350ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، چار سال قبل یہ ایک ہزار ارب تھا اور اب سود کی رقم ملا کر یہ قرضہ 2700ارب کا ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گیس کی قلت پر بھی گفتگو کی گئی کیونکہ ہمارے پاس قدرتی گیس کے ذخائر ہماری ضروریات سے کم ہیں تو ہم باہر سے دو ٹرمینل منگواتے ہیں، اگر ہم ان کا مکمل استعمال کریں تو بھی گیس کی قلت ہو گی لہٰذا اس بات پر بھی گفتگو ہوئی کہ ہم اس کو کس طرح سے ایسے چلائیں کہ صنعتیں زیادہ سے زیادہ چلائیں۔

چینی کی ممکنہ قلت کے حوالے سے سوال پر وزیر کامرس نے کہا کہ ہمارے ملک میں یکم ستمبر کو 20لاکھ ٹن چینی موجود تھی، پاکستان میں ہر مینے کی کھپت چھ لاکھ ٹن سے زیادہ نہیں ہے، ہمارے پاس نئی فصل آنے سے پہلے وافر اسٹاک موجود ہے، صرف ایک چیز اہم ہے کہ ہمیں اسمگلنگ کو کنٹرول کرنا ہے اور اس سلسلے میں پر ادارہ حرکت میں آ چکا ہے۔

install suchtv android app on google app store