14 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد، وفاقی پولیس نے سول جج کی اہلیہ کیخلاف مقدمہ درج کرلیا

14 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کا مقدمہ درج فائل فوٹو 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کا مقدمہ درج

وفاقی پولیس نے بچی کے مبینہ الزام پر اس کے والد کی مدعیت میں درج مقدمے میں حبس بے جا میں رکھنے اور تشدد کی دفعات شامل کی ہیں۔ 

متاثرہ بچی کے والد منگا خان نے پولیس کو دی گئی درخواست میں بتایا کہ انہوں نے تقریباً چھ ماہ قبل بیٹی رضوانہ کو گھریلو کام کاج کے لیے سول جج عاصم حفیظ کے گھر بھیجا اور ماہانہ تنخواہ 10 ہزار روپے طے پائی۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری بچی جج صاحب کے گھر کام کرنے چلی گئی، وقتا فوقتاً جج صاحب کی اہلیہ سومیہ ان کی بات بذریعہ ٹیلی فون بیٹی سے کروا دیتی تھیں۔

والد نے کہا کہ ’23 جولائی کو میں اپنی بیوی شمیم اور سالے محمد فیاض کے ہمراہ اپنی بیٹی کو دیکھنے اور ملنے جج صاحب کے گھر گیا، ہم جیسے ہی دروازے سے داخل ہوئے تو ایک کمرے سے میری بچی کے رونے کی آواز آئی، آواز سن کر مجھے تشویش ہوئی تو ہم تینوں نے اس کمرے کا رخ کیا، اور دیکھا کہ میری بیٹی زخمی حالت میں پڑی ہے اور زارو قطار رو رہی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اس کے سر کے پچھلی جانب زخم تھا، سر میں چھوٹے چھوٹے بھی زخم تھے جن میں چھوٹے چھوٹے کیڑے پڑے ہوئے تھے، میں نے اپنی بیٹی کو مزید دیکھا تو دونوں بازو زخمی تھے، دونوں ٹانگیں زخمی تھیں، پورا چہرہ زخمی تھا، منہ کھول کر دیکھا تو دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا، دونوں آنکھیں دونوں ہونٹ اور ناک پر سوجن تھی، میں نے اور میرے ساتھ میری بیوی اور سالے نے جسم دیکھا تو اس کی پیٹھ پر بھی زخم تھے اور سلانٹوں کے نشان تھے، میری بیٹی کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں اور پورے جسم پر چھوٹے چھوٹے کافی زخم تھے، جبکہ گلے پر بھی نشان موجود تھے جیسے کوئی گلہ گھونٹتا رہا ہو‘۔

منگا خان کے مطابق ’بیٹی سے پوچھا کہ تمہاری یہ حالت کس نے کی تو رضوانہ نے بتایا کہ حج صاحب کی بیوی سومیہ بی بی روزانہ مجھے سوٹوں، ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھی، رات کو مجھے بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھی اور تقریباً جب سے میں یہاں آئی ہوں اس نے مجھے کمرہ میں بند کر کے جس بے جا میں رکھا ہوا ہے، مجھ پر سومیہ بی بی نے بے حد ظلم کیا ہے‘۔

ایف آئی آر کے مطابق بچی نے والد کو کہا کہ’جان کے خوف سے میں آپ کو نہیں بتاتی تھی، خدا کا واسطہ ہے مجھے یہاں سے لے جاؤ’۔

والد نے پولیس کو بتایا کہ ہم فی الفور وہاں سے اپنی بیٹی کو اٹھا کر آج صبح سر گودھا پہنچے اور قریب تین بجے صبحڈسٹرکٹ پہیڈکوارٹر سرگودھا ایمر جنسی میں آئے، جہاں میری بیٹی کی حالت غیر ہو گئی، تو ڈاکٹروں نے اسے لاہور جنرل اسپتال ریفر کر دیا۔

ابتدائی میڈیکل رپورٹ
ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم پر 15 جگہ چوٹوں کے نشانات ہیں، میڈیکل رپورٹ کے مطابق 15 چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔

بیان میں تضاد
قبل ازیں والدین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جج کی اہلیہ نے زیور چوری کا الزام لگا کر بیٹ سے بچی پر تشدد کیا، بچی کی حالت خراب ہونے پر جج کی اہلیہ اسے والدہ کے سپرد کرکے چلی گئی۔

سول جج کی آڈیو
سول جج عاصم حفیظ کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعے سے لاعلم ہوں، میرا واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیوی کا زیورغائب ہے لیکن تشدد نہیں کیا گیا۔

جج نے کہا کہ بچی کو اہلیہ نے نہیں اس کی اپنی والدہ نے مارا ہے، بچی کو کہا تمہیں گھر چھوڑ آئیں، تو اس نے اپنا سر دیوار میں دے مارا، واقعے کا علم ہونے کے بعد خود لاہور جا رہا ہوں۔

فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تعینات سول جج عاصم حفیظ نے ایک آڈیو میں کہا کہ بچی رضوانہ دسمبر 2022 سے ہمارے گھر ملازمہ تھی، بچی نے ایک ماہ قبل گملوں سے مٹی کھائی جس کی وجہ سے اس کی اسکن خراب ہو گئی۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے گوجرانوالہ کے ڈاکٹر سے بچی کی بیماری کی تشخیص کروا کر دوا لگا دی تھی، بچی اسکن ٹھیک ہونے کے کچھ دن بعد زخم کو چھیل دیتی تھی، مجھے بچی کے سر میں موجود چوٹوں کا علم نہیں ہے کیونکہ بچی سر پر اسکارف باندھتی تھی۔

جج عاصم حفیظ کے مطابق اہلیہ نے بتایا کہ بچی کام نہیں کرتی، تو میں نے کہا اسے اس کے گھر چھوڑ آؤ، میری اہلیہ ڈرائیور کے ہمراہ بچی کو سرگودھا اس کے والدین کے پاس چھوڑ آئی تھیں۔

سول جج نے مزید کہا کہ بچی ہمیں کہتی تھی کہ اگر میں واپس گئی تو میری والدہ مجھے ماریں گی، بچی گھر جانا نہیں چاہتی تھی لیکن ہم اس کو چھوڑ آئے، لاہور جا رہا ہوں بچی کو وہیں ریفر کیا گیا ہے، چاہتا ہوں بچی جلد صحت یاب ہو جائے۔

پولیس کا بیان
واقعے کی اطلاع ملتے ہی ڈی پی او سرگودھا محمد فیصل کامران، ایس پی سٹی اور اے ایس پی سٹی کے ہمراہ ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے۔

ڈی پی او سرگودھا فیصل کامران نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں، بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے زخموں میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔

اے ایس پی سٹی سرگودھا عثمان میر کا کہنا ہے کہ بچی کو ملازمت پر بھجوانے والے شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے، واقعے پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

ترجمان سرگودھا پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی پی او سرگودھا کی ہدایت پر ایس پی انوسٹی گیشن، اسلام آباد پولیس سے رابطے میں رہ کر قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں، سرگودھا پولیس اس سارے معاملے میں مضروب لڑکی اور اس کے ورثاء کو مکمل قانونی معاونت فراہم کر رہی ہے۔

جبکہ اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مقدمہ کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی۔

install suchtv android app on google app store