چین نے پاکستان سے معیاری زرعی مصنوعات کو اپنی منڈی میں داخل کرنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ زمینی نقل و حمل کے ذریعے دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنے کے لیے تیارہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے زمینی راستے سے سمندری خوراک کی درآمد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہر موسم کے تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داروں کے طور پر چین اور پاکستان تجارت اور دیگر شعبوں میں قریبی تعاون میں مصروف ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کا پہلا سمندری غذا کا کارگو کنٹینر قراقرم ہائی وے کے ذریعے سنکیانگ پہنچا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان سے سمندری خوراک کے کنٹینرز کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ساتھ ساتھ کراچی سے کاشغر شہر تک سڑک کے ذریعے پہنچایا گیا ہے، یہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم چین کی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے پاکستان سے معیاری زرعی مصنوعات کا خیرمقدم کرتے ہیں اور زمینی نقل و حمل کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دینے، پائیدار ترقی، دو طرفہ تجارت کے حصول اور اپنے دونوں عوام کو مزید فوائد پہنچانے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
چین کو سمندری خوراک کی برآمد پر تبصرہ کرتے ہوئے چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق نے کہا کہ پاکستان اور چین کی حکومتیں قراقرم ہائی وے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پاکستانی سمندری غذا اور زرعی مصنوعات کو چینی مارکیٹ میں لانے کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہی ہیں۔ہم اس زمینی راستے سے چینی مارکیٹ میں مزید پاکستانی سمندری غذا اور زرعی مصنوعات لانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ خنجراب بارڈر کے ذریعے پاکستان کی اعلیٰ معیار کی مصنوعات کی تجارت اور برآمدات کو آسان بنانا پاک چین مشترکہ مقصد ہے۔
پاکستانی ٹرانسپورٹ کمپنی کے نمائندے نے کہا کہ یہ ایک چینی فرم کے ساتھ شراکت میں دو طرفہ سرحد پار روڈ ٹرانسپورٹ کے کاروبار کی پہلی کوشش ہے۔ٹرک کے ذریعے کھیپ کی لاگت ہوائی نقل و حمل سے بہت کم تھی اور کسٹم کلیئرنس کا طریقہ کار آسان تھا۔ اس کے علاوہ، سڑک کے ذریعے کھیپ نے ٹرانسپورٹ کا وقت کم کر کے آٹھ دن کر دیا، جو کہ چھوٹے پیمانے پر اور پوائنٹ ٹو پوائنٹ لاجسٹکس کے لیے موزوں تھا، جب کہ کراچی پورٹ سے شنگھائی کی یانگشن پورٹ تک سمندری نقل و حمل میں تقریباً ایک مہینہ لگا۔