عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتے مگر وہ ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے: خواجہ آصف

وزیردفاع خواجہ آصف فائل فوٹو وزیردفاع خواجہ آصف

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتے مگر وہ ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے،اگر عدلیہ پارلیمنٹ کی حدود میں مداخلت کرے گی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا، آڈیو لیکس پر تحقیقاتی کمیشن میں چیف جسٹس کواس لیے شامل نہیں کیا کہ اس میں ان کی خوش دامن کی آڈیو شامل تھی ، چیف جسٹس نے الگ رہنے کے بجائے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیکر کمیشن کو کام سے روک دیا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے مزید کہا کہ مفادات کے ٹکرائو کی صورت میں منصف کوانصاف کی کرسی پرنہیں بیٹھنا چاہئے، چاہتے ہیں پارلیمان اور سپریم کورٹ کے درمیان اختلافات نہ ہوں، آئین کے تحت کوئی ادارہ کسی دوسرے آئینی اداے کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو قانون کے مطابق ہو تو اسے بھی مسترد کردیا جاتاہے، مفادات کا ٹکرائو ایک اہم نکتہ ہے، اگرایسا معاملہ ہو تواصول ہے کہ منصف کو منصفی کی کرسی پرنہیں بیٹھنا چاہئے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کابینہ نے ایک کمیشن بنایا جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین اوردو ہائیکورٹس کے چیف جسٹس شامل تھے، چیف جسٹس نے اسے کام سے روک دیا۔چیف جسٹس کو اس لئے شامل نہیں کیاگیا تھا کیونکہ آڈیوٹیپس میں ان کی خوش دامن شامل تھیں اس لئے انصاف کے اصولوں کے مطابق چیف جسٹس کوشامل نہیں کیاگیا، ایک تاثرپایا جاتاہے کہ آڈیو ٹیپس یا لیکس شاید فون کے ساتھ ڈیوائس لگا کے سنی جاتی ہیں، آپ برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں فون ہیک کرسکتے ہیں، اس وقت بین الاقوامی ہیکرز فعال ہیں۔

انہوں نے کہاکہ میری اطلاع ہے کہ ثاقب نثار صاحب کے بیٹے نے کمیٹی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی ہے، یا تو وہ آڈیو ٹیپس سے انکارکردیں۔آج سے کچھ سال پہلے ایک کیس تھا جس میں اس وقت کے چیف جسٹس کے بیٹے کا ملک ریاض کے ساتھ کیس تھا، اس وقت چیف جسٹس خودنہیں بیٹھے، یہ روایات اب ترک کردی گئی ہیں، اگر اس وقت کے چیف جسٹس نے اپنے آپ کو علیحدہ کیا تھا تو موجودہ چیف جسٹس کو بھی اپنے آپ کو علیحدہ کرنا چاہئے تھا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا جس میں چیف جسٹس کے اختیارات کو وسعت دی گئی مگر اس کا بھی نوٹس لیاگیا، ہم چاہتے تھے کہ ایسا طریقہ کاروضع کیا جائے جس سے ون مین شو کا تاثرختم ہو، ہماری تجویز تھی کہ عدالت عظمیٰ میں اختیارات اور انصاف کی فراہمی میں شفافیت لائی جائے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان اورسپریم کورٹ کے درمیان اختلافات نہ ہوں، آئین کے تحت کوئی ادارہ کوئی دوسرے اداے کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، آئین نے پارلیمان کی کوکھ سے جنم لیاہے، ہمیں کہاجارہاہے کہ ہمیں ڈکٹیٹ نہ کیا جائے مگراس کا اطلاق سپریم کورٹ پربھی ہوتاہے۔یہ پاکستان کے آئینی سیٹ اپ کیلئے خطرناک ہے۔ اسلام آباد میں جس شخص نے درخواست دی ہے وہ خود آڈیوٹیپ میں ملوث ہے۔

install suchtv android app on google app store