سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر کا فیصلہ محفوظ کر لیا، محفوظ کیا گیا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں آج سماعت کے موقع پر سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا اور سپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت دی جن کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق کیس میں عدالت عظمیٰ نے سيکريٹری دفاع اور سيکريٹری خزانہ کو طلب کر رکھا ہے، سياسی جماعتوں کے وکلاء کی جانب سے عدالتی بائيکاٹ کے اعلان کا امکان ہے، کارروائی مکمل ہونے پر آج مختصر حکم نامہ بھی سنايا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال نے پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی ہم کارروائی کا حصہ ہیں۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان استعمال کی گئی۔
جمعیت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے۔ اکرم شیخ بولے کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی ان کا اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں؟، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ جی ہاں حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔ جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کردی ہے۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بینچ پر اعتراض بھی اٹھایا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کیس میں سوموٹو لینے کا نوٹ لکھ کر ذہن واضح کرچکے، جسٹس اعجاز الاحسن پہلے مرحلے میں سماعت سے بھی معذرت کرچکے۔
خیال رہے کہ حکمراں اتحاد ملک بھر میں ایک ہی روز الیکشن پر اصرار کر رہا ہے، فل کورٹ نہ بننے پر حکومتی اتحاد بائيکاٹ کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس سے مودبانہ درخواست ہے ہمیں پہلے سنا جائے، یہ کیس ایس ایم سی ون اور 2023ء کا تسلسل ہے، 30 اپریل والے کیس میں تینوں پارٹیز کو سنا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سنا جائے کیونکہ ہم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں، قابل سماعت ہونے سے پہلے بحث ہو پھر میرٹس پر آئیں، پورے انصاف کیلئے سب کو سنا جائے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماء محسن شاہنواز رانجھا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی ہے کہ 3 رکنی بینچ مقدمہ کی سماعت سے اجتناب کرے، ججز ایک کے بعد ایک کرکے خود کو علیحدہ کرتے نظر آرہے ہیں، انتی ٹوٹ پھوٹ کسی بھی بینچ میں ماضی میں نظر نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گھر کو بچانے کیلئے سب بڑوں کو مل بیٹھ جانا چاہئے، عوام دیکھ رہے ہیں کہ لاڈلہ کون ہے، سسٹم کو بٹھوا کر الیکشن نہیں جتوایا جاسکتا۔