عمران خان کی مبینہ بیٹی چھپانے پر نااہلی کیس: میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے: عدالت

سابق وزیر اعظم عمران خان فائل فوٹو سابق وزیر اعظم عمران خان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر ان کی نااہلی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اگر میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کر رکھی ہے کہ عدالت کاغذاتِ نامزدگی میں جھوٹ بولنے پر عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت بطور رکنِ اسمبلی نااہل قرار دے۔

مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ جب کہ عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا اور ابوزر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے آپ نے کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل کرنے ہیں، اگر آپ میرٹ پر بھی دلائل دینا چاہتے ہیں وہ آپ کی مرضی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں ترمیم اور کیس قابل سماعت ہونے پر آرڈر جاری کر دیں گے، اگر کیس قابل سماعت ہوا تو پھر آگے چلیں گے، اگر میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30 سیکنڈ کا کیس ہے۔

وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ جب عدالت نے نوٹس جاری کر دیا تو عمران خان کو میرٹ پر جواب جمع کرانا چاہیے تھا، عمران خان نے کیس کے میرٹ پر جواب جمع نہیں کرایا، عمران خان نے کیس قابل سماعت ہونے سمیت پانچ اعتراضات اٹھائے۔

حامد علی شاہ نے کہا کہ عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں، کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جاچکا، عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے اُس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس کے باوجود بھی وہ دوبارہ رکن قومی اسمبلی نہیں بن جاتے، عمران خان اب اُس نشست سے تو ایم این اے تو نہیں ہیں، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان کا ایک دوسرے حلقے سے کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری ہو چکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر اسٹیٹس کیا ہو گا؟ کیا پارٹی سربراہ پبلک آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں، یہ دونوں سوالات اہم ہیں، ان پر دلائل دیں، ایک تو الیکشن ٹربیونل میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کی درخواست دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل میں تو کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی، اب کیا عمران خان حلف لیے بغیر بھی پبلک آفس ہولڈر ہیں؟ وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ جی، ان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا جا چکا ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر اب آپ نے مطمئن کرنا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے پارٹی سربراہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس فیصلے کا پسِ منظر کیا تھا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں بتاتا ہوں، میں اس کیس میں میاں نواز شریف کا وکیل تھا، چیف جسٹس عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اچھا، مختلف اوقات میں مختلف کردار، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آئین میں رکن قومی اسمبلی یا سینیٹر کو حلف لینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا؟

وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ نہیں، آئین میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چوہدری نثار اور اسحٰق ڈار کے ایسے کیسز موجود ہیں۔

دوران سماعت فیصل واڈا نااہلی کیس کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے موجودہ مدت کے لیے نااہل کیا جس پر وکیل نے دلائل دیے کہ اس کیس میں فیصل واڈا نے عدالت میں پیش ہو کر معافی طلب کی جس پر انہیں ریلیف ملا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر تاحیات نااہل شخص عدالت سے معافی مانگ لے تو کیا ہوگا؟ کیا یوں معافی مانگنے والا تاحیات اور معافی نہ مانگنے والا ایک مدت کے لیے نااہل ہوگا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بعد میں کسی کو یاد آئے کہ فلاں اس کا بچہ تھا۔

دوران سماعت نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ آصف نااہلی مقدمات بھی زیر بحث آئے جس پر وکیل نے کہا کہ نواز شریف نااہلی کیس میں عمران خان خود درخواست گزار تھے، عدالت کیس کی مزید سماعت کل دن 2 بجے کرے گی۔

install suchtv android app on google app store