سپریم کورٹ انتخابات از خود نوٹس کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائے گا

چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل فائل فوٹو چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل

پنجاب،کے پی الیکشن ازخود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہوگئی جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، سیکرٹری ٹو چیف جسٹس نے بتایا کہ فیصلہ آج سنایا جائے گا۔ پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت مکمل کی۔ پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت مکمل ہونے کے بعد کہا تھا کہ ہم تمام وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی، ابھی ہم اٹھ رہے ہیں، کتنی دیر میں ہم واپس آتے ہیں کچھ کہہ نہیں سکتا۔

خیال رہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔

گزشتہ روز کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی اور اب پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

گزشتہ روز سماعت شروع ہوئی چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہےگا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔

سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کردیا،تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا ہےکہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہےکہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ لکھا کہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے، اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں کل کی سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری پر اعتراض اٹھادیا،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہےکہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کےتحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کےتحت نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پرگورنرکسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرےگا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کےساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنےکی کیا ضرورت ہے؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنرکو دے سکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟ اس پر سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے کہا کہ نگران حکومت کاکام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں۔

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کا عمل لازمی قرار دیا تھا، آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہےکہ صدر کا ہرعمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں، چیف جسٹس نےکہا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق تو الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ نگران حکومت تو 7 دنوں کے بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنرکہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے، اتنے دنوں سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، وقت کی معیاد مکمل ہونے پر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدرتاریخ دےگا، میرا موقف ہےکہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا، جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی آئین کے تحت ہی ہوگا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نےکہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ اگرمان لیا کہ قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے تو پھر صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینےکا کہہ سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرےفریق کو سن کرفیصلہ کریں گےکہ صدرکو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

وکیل عابد زبیری نےکہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کا پابند ہوگا۔

اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانےگا، الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90 دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنرکی تاریخ پر تاخیر کرسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نےکہا کہ گورنر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 ویں دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ گورنرکو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ آج الیکشن کمیشن سےگورنرکی مشاورت کرائیں اورکل تاریخ دے دیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہوسکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینےکی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے واضح کہا کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر کوکرنا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟

چیف جسٹس نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت 14،14 دن ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ آئین کےتحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاریخ میں صدر کےکچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ کیا کسی نے سیکشن57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا؟جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیارہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینےکا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہو تو صدر اورگورنر کا کردار کہاں جائےگا؟ کیا صدرکا کردار صرف نیوز کاسٹرکا ہے کہ وہ اعلان کرے؟ اعلان ہی کرنا ہے تو الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ استعمال کرے۔

چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار مرکزی ہے، دوسری جانب کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا کردار مشاورتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ 2 ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا؟ 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ 2008 میں بہت بڑا سانحہ ہوا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، قانون میں تاریخ دینےکا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں ہی کریں گے، جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےگورنرز کو تاریخیں تجویز کیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجواسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نےکہا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کے پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کے لیے سمری نہیں بھجواسکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وزیراعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو صدر کو کب تک انتظار کرنا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائےگئے،آج بھی قانون بنا کرذمہ داری دے دیتے، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج کی قانون سازی پر طعنہ ملتا ہےکہ پارلیمنٹ نامکمل ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 دن کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پرشک نہیں کر رہا، اگرانتخابات کی تاریخ پر ڈکٹیشن کہیں اور سےآنی ہے تو الیکشن کمیشن باقی ذمہ داریوں سے بھی انکار کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے نہیں نکل سکتا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت کام کرنا ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے 3 طرح کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن سینیٹ،صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے، ہم صرف پنجاب اور کے پی کے الیکشن کی بات کر رہے ہیں، ہمارا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے، حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھربھی وہ عملدرآمد ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کہنا ہےکہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے یا نہیں، وہ تاریخ دے گا، وکیل الیکشن کمیشن نےکہا کہ پنجاب کےگورنر کہتے ہیں کہ میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا وہ آج تک اس مو قف پر قائم ہیں؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نےکہا کہ ہم نےگورنرپنجاب کو 9 سے 13 اپریل تک الیکشن تاریخ دینےکے لیے خط لکھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ گورنر آنکھیں بندکرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟ گورنر نے مشاورت کے لیے آپ کو بلایا یا نہیں؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضہ نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر نے مشاورت کے بجائے انٹرا کورٹ اپیل دائرکر دی، ہائی کورٹ نے مشاورت کرکے تاریخ دینےکا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس کے پوچھنے پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط لکھا تھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ پشاور ہائی کورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کر رہی ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ گورنر کے پی نے مشاورت کی نہ ہی تاریخ دی، گورنر کے پی نے کہا صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے،گورنر نے ایجنسیوں سے رجوع کرنےکا کہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کےپی کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا کہ مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا، الیکشن کمیشن صرف چٹھیاں نہ لکھے، پنجاب میں گورنر سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے گورنر کےپی کی جانب سے پیش ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو روسٹرم پر بلالیا۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے استفسار کیا کہ گورنرکے پی کے خط کا کیا مطلب ہے؟ ،ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ گورنر نے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ تاریخ نہیں دیں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نےکہا کہ گورنر کے پی نے اسمبلی وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی، الیکشن کمیشن نے 3 فروری کو گورنرکو صوبائی حکومت سے رجوع کا کہا، خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکرکیا۔

دوران سماعت پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہےکہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس نے 5 رکنی لارجربینچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔

سپریم کورٹ نےانتخابات کی تاریخ کے لیے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کرنےکا حکم دے دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ سیاسی جماعتیں مشاورت کرکے عدالت کا آگاہ کریں، عدالت نے 4 بجے تمام وکلا کو پیش ہونے کی ہدایت کردی، سپریم کورٹ نے شیریں مزاری اور فواد چوہدری کو عمران خان سے مشاورت کا حکم دے دیا جب کہ فاروق ایچ نائیک، منصور عثمان اور کامران مرتضیٰ کو بھی اپنے قائدین سے ہدایات لینےکا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب اپنے اپنے لیڈر کو فون کریں اور ہدایات لیں، حل نکل آئے گا۔

جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ انتخابات میں تاخیر ہوبھی جائے تو آئین کا آرٹیکل 254 موجود ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات کے لیے 90 دن سے آگے جانا ہے تو آئین میں ترمیم درکار ہوگی۔

فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کل دن ایک بجے رکھ لیں، سب کو اپنے مؤکلین سے ہدایات لینی ہیں، اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ کیس کا فیصلہ آج ہی کریں گے، عوامی مفاد کے لیے سیاستدان مل بیٹھیں، جا کے اپنے بڑوں سے پوچھیں وہ آپس میں بات چیت کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ آپ لوگ مل کر یہ بتادیں کہ انتخابات کی تاریخ کسے دینی ہے۔

اس دوران عدالت نے فواد چوہدری اور شیریں مزاری کو روسٹرم پر بلالیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی لیڈرشپ سے معلوم کریں کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

 

پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں: چیف جسٹس

وکیل فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ معلوم نہیں زرداری صاحب کہاں ہیں، اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ آپ نے فون پر ہی بات کرنی ہے، ابھی کریں،کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھاسکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانےکا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لےکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں90 دن سے زیادہ تاخیر ہو، قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئےگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورتحال ہےکہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں، آج صرف تاریخ طےکرنےکا معاملہ دیکھنا ہے، اگر 90 دنوں سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کردےگا، معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

install suchtv android app on google app store