اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف علی نے جوڈیشل کمیشن کے گزشتہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کی جانب سے پیش کیے گئے خیالات کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اجلاس ملتوی کرنے پر رضامندی ظاہر کی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایسی تعیناتیوں پر غور کرنے سے پہلے ان کے لیے مطلوبہ معیار وضع کیا جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے رات گئے جاری کیے گئے خط میں کہا گیا کہ وہ جسٹس طارق مسعود کے پیش کردہ مؤقف سے واضح طور پر متفق ہیں۔
انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے پیش کردہ نقطہ نظرکی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’کاش یہ اجلاس خوش اسلوبی اور غیر مبہم نتائج کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے ریمارکس مکمل کرنے کا موقع ملتا‘۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے دیگر اراکین اور میڈیا کو بھیجے گئے خط میں اشتر اوصاف علی نے لکھا کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے ترقی کے لیے تجویز کردہ ناموں کے میرٹ پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا نام قابل غور ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اجلاس میں ان کا مؤقف یہ تھا کہ امیدواروں کا نام مسترد کرنے یا تصدیق کرنے کا عمل پہلے سے طے شدہ اصولوں کے تحت وضع کیا جانا چاہیے اور کسی بھی نئے امیدوار کے ڈیٹا کا اچھی طرح سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے لکھا کہ ’یہ وہ اہم وجہ تھی جس کے سبب میں نے مشورہ دیا کہ اس طرح کے معیار کی منظوری تک اجلاس کو مؤخر کر دیا جائے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان میں کوئی بھی تعیناتی ایک مقدس امانت ہے جو جوڈیشل کمیشن کے ارکان کے پاس ہے، اس اعتماد کو پورا کرنے کے لیے اراکین کو ایک دوسرے کو اپنے خیالات کا مکمل اور بلا روک ٹوک اظہار کا متحمل ہونا چاہیے‘۔
خط کے اختتام میں انہوں نے لکھا کہ ’میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی اب اس طرح سخت انداز میں نہیں ہوسکتی، ہم ان عارضی عہدوں کے پابند ہیں جہاں ذاتی تلخ تجربات سے بڑھ کر ہمارا فرض اس ملک کی خدمت کرنا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ممتاز ترین ججز کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس انداز سے ترقی دی جائے جو میرٹ اور طے شدہ طریقہ کار پر مبنی ہو‘۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد متضاد اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ دراصل کیا معاملہ پیش آیا۔
اجلاس میں چیف جسٹس کی جانب سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے پیش کیے گئے نامزد افراد کے بارے میں رائے کو مؤخر کر دیا گیا تھا، اس حوالے سے سپریم کورٹ کی ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے اراکین نے کہا کہ نامزد افراد کو 5 میں سے 4 کی اکثریت نے مسترد کر دیا تھا۔
اجلاس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے کمیشن کے اراکین کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ان کی رائے کے مکمل اظہار کا موقع ملنے سے پہلے ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال اچانک اجلاس چھوڑ کر چلے گئے، جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن بھی چلے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس نے میٹنگ منٹس کا حکم نہیں دیا تھا اور یہ کام قائم مقام سیکریٹری پر چھوڑ دیا گیا۔
چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے متعلق تنازع کو حل کرنے کے لیے جمعے کو اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کرنے کا حکم دیا، دریں اثنا کمیشن کے ایک اور رکن جسٹس طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دلائل کی حمایت میں خط لکھا۔