کورونا متاثرین میں جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، تحقیق میں انکشاف

کورونا متاثرین میں جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے فائل فوٹو کورونا متاثرین میں جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے

ایک تحقیق کے مطابق کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں طویل عرصے بعد بھی عام افراد کے مقابلے 80 مختلف بیماریاں اور طبی پیچیدگیاں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔پھیپھڑوں، دماغ اور گردے جیسے متعدد اعضاء کو تین گنا زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

کورونا کا آغاز دسمبر 2019 میں چین سے ہوا تھا اور 5 مئی 2023 کو عالمی ادارہ صحت نے اس کی گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔کورونا سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہلاک جب کہ کروڑوں افراد متاثر ہوئے اور تقریبا ڈھائی سال تک دنیا میں لاک ڈاؤن سمیت دیگر جزوی پابندیاں بھی رہیں۔

کورونا سے متعلق ماضی میں کی جانے والی متعدد تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ کورونا سے صحت یابی کے دو سال بعد بھی بعض افراد میں متعدد طبی پیچیدگیاں اور بیماریاں ہو سکتی ہیں۔کورونا سے صحب یابی کے بعد ہونے والی طبی پیچیدگیوں اور بیماریوں کو ’لانگ کووڈ‘ کا نام دیا گیا تھا۔لانگ کووڈ کی اصطلاح کورونا کے شکار ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کہ صحت یابی کے بعد بھی مختلف طبی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ماضی میں کی جانے کی والی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد میں 80 بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جن میں سے بعض بیماریاں خطرناک بھی ہیں۔

لیکن اب لانسیٹ ریسپریٹری میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں 259 ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا جو کورونا وائرس کی وجہ سے شدید بیمار ہوئے اور انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔رپورٹ کے مطابق پانچ ماہ تک اسپتال میں داخل ہونے کے بعد جب انہیں ڈسچارج کیا گیا تو ان کے جسم کا ایم آر آئی اسکین ہوا اور پھر ان مریضوں کے اسکین کا موازنہ ان 52 افراد سے کیا گیا جن کو کبھی کورونا نہیں ہوا تھا۔

نتائج سے پتہ چلا کہ کورونا سے متاثر نہ ہونے والے لوگوں کے مقابلے 259 مریضوں کے اعضا میں واضح فرق تھا۔ایم آر آئی اسکین میں انکشاف ہوا کہ پھیپھڑوں، دماغ اور گردے جیسے متعدد اعضاء کو تین گنا زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔سب سے زیادہ فرق پھیپھڑوں میں دیکھا گیا جہاں کورونا سے متاثر نہ ہونے والے لوگوں کے مقابلے لانگ کووڈ مریضوں کے پھیپھڑوں میں 14 گنا زیادہ واضح فرق دیکھا گیا۔

لانگ کووڈ مریضوں کے ایم آر آئی اسکین میں موجود فرق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دماغ اور گردوں کے مسائل بھی بڑھنے کا امکان ہے۔جبکہ دل یا جگر کی صحت میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔

 اس تحقیق کا مقصد کورونا کے علامات کے لیے بہتر علاج تلاش کرنا ہے۔اس تحقیق کے سرکردہ تحقیقات میں سے ایک اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر بیٹی رمن کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ جو لوگ طویل عرصے تک کورونا میں مبتلا ہوئے تھے ان کے جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مریض کی عمر، وہ کورونا کی وجہ سے کتنے شدید بیمار تھے اور ساتھ ہی اگر انہیں کورونا کے دوران ایک ہی وقت میں دوسری بیماریاں بھی تھیں (یعنی ذیابطیس وغیرہ) یہ سب اہم عوامل اس بات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ آیا ان کے جسم کے اہم اعضاء کو نقصان پہنچا ہے یا نہیں، جیسا کہ طبی معائنے سے پتہ چلا ہے۔

محققین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بعض علامات (جیسا کہ تنگ سینہ اور کھانسی) ایم آر آئی اسکین میں دکھائے گئے عضو کے نقصان سے مماثلت رکھتے ہیں خاص طور پر پھیپھڑوں میں، لیکن طویل عرصے تک کورونا میں مبتلا لوگوں کی تمام علامات کا براہِ راست تعلق اسکین پر نظر آنے والی چیزوں سے نہیں ہو سکتا۔ڈاکٹر رمن کا مشورہ ہے کہ ایسا بھی لگتا ہے کہ وہ لوگ جو کووِڈ کی وجہ سے اسپتال میں داخل تھے اور ابتدائی انفیکشن سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے تھے ان کے متعدد اعضاء میں مسائل کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔

لیسٹر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کرس برائٹلنگ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق مختلف علامات کو سمجھنے کی کوشش کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم اسکین کے نتائج کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا اور طویل عرصے تک کورونا میں مبتلا مریضوں کے لیے ٹیسٹ اور نئے علاج کیسے تیار کر سکتے ہیں‘۔

install suchtv android app on google app store