ماضی کی مقبول فلمی ہیروئن ریما خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی میں فلم پروڈیوسر و ہدایت کار اداکاروں کے لائن لگا کر بیٹھتے تھے کہ کب ان کا پسندیدہ اداکار فارغ ہوگا اور وہ انہیں کاسٹ کر سکیں گے۔
ریما خان حال ہی میں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے شو میں شریک ہوئیں، جہاں انہوں نے فلمی کیریئر سے متعلق کھل کر بات کی۔
اداکارہ نے بتایا کہ انہوں نے محض 16 برس کی عمر میں ’بلندی‘ نامی فلم سے کیریئر شروع کیا اور ان کی پہلی فلم ہی کامیاب گئی۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں اور شان کو اداکار اور اسٹار بنانے میں کئی افراد کی محنت شامل ہے، وہ تو نئے تھے لیکن جنہوں نے انہیں اسٹار بنایا وہ پہلے سے ہی انڈسٹری کا حصہ تھے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اسکرین پر نظر آنے والے ہر چہرے کے پیچھے کئی افراد کی محنت ہوتی ہے اور انہیں بھی ہیروئن اور اسٹار بنانے میں کئی افراد نے محنت کی اور خدا نے انہیں اپنی محنت کا پھل دیا اور وہ نام کمانے میں کامیاب گئیں۔
ریما خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1990 سے 2000 تک صرف 10 سال تک فلم انڈسٹری میں کام کیا اور اسی عرصے کے دوران انہوں نے 200 سے زائد فلمیں کیں۔
انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ماضی میں فلمیں کرتے وقت ایک ایسا دور بھی آیا جب فلمیں صرف گنڈاسا کلچر پر بننے لگیں اور انہوں نے بھی ایسی متعدد فلموں میں کام کیا، جس پر انہیں اپنے گھر والوں سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر علاقائی زبان میں فلمیں بنتی ہیں اور ہر علاقے کے دیکھنے والے شوقینوں کا مزاج بھی مختلف ہوتا ہے، اس لیے گنڈاسا کلچر کی فلمیں دیکھنے والے افراد کے لیے جنہوں نے فلمیں بنائیں وہ بھی غلط نہیں تھے اور کسی کا کام غلط نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے یا کسی اور کے کسی بھی طرح کے کام کو غلط نہیں کہتیں، وہ وقت اور حالات کا تقاضا اور ضرورت تھی، اس لیے انہوں نے بھی گنڈاسا کلچر پر فلمیں کیں۔
خیال رہے کہ گنڈاسا کلچر کی اصطلاح پنجابی زبان کی فلموں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، ماضی میں ایک وقت میں پاکستان میں اردو فلموں میں بھی پنجابی انداز اور زبان کو بہت شامل کیا جاتا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں اداکارہ نے واضح کیا کہ ان کا پیدائشی نام ہی ریما ہے، بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ان کا فلمی نام ہے جو کہ غلط ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان سے متعلق انٹرنیٹ پر بہت ساری غلط معلومات دستیاب ہے لیکن انہوں نے مذکورہ غلط معلومات کی وضاحت نہیں کی۔
ریما خان نے فلم اسٹار سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ’اسٹار‘ صرف فلموں میں دکھائی دیتے تھے اور پھر کبھی کبھار کسی اخبار یا میگزین کے انٹرویو میں ان کی جھلک نظر آتی تھی اور اب ہر وقت ہر کوئی صارفین کو سوشل میڈیا کے ذریعے تفریح فراہم کر رہا ہے، جس وجہ سے کوئی بھی شخص انہیں دیکھنے کے لیے سینما کی ٹکٹ نہیں خریدتا۔
انہوں نے کہا کہ ’اسٹار‘ کی ایک اپنی پہچان ہوتی ہے، اسے کوئی چھو نہیں سکتا، اس متعلق ہر کسی کو مکمل معلومات نہیں ہوتی اور اگر اسے کوئی چھو لے تو پھر اسٹار کی اہمیت نہیں رہتی۔
ریما خان نے کہا کہ ہر کوئی اپنی شخصیت اپنے لباس، کام، باتوں اور خیالات سے بناتا ہے اور پھر لوگ بھی اس سے ملتے وقت ان ہی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن جب ہر کوئی ہر وقت سوشل میڈیا پر تماشا لگاتا پھرے گا تو پھر دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ اسی طرح ہی پیش آئیں گے۔
اداکارہ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ماضی میں فلم پروڈیوسر اور ہدایت کار بیچارے اداکاروں کے لیے لائن لگاکر بیٹھتے تھے کہ کب ان کا پسندیدہ اداکار کام سے فارغ ہوگا کہ وہ انہیں اپنی فلم میں کاسٹ کرے۔
ریما خان کا کہنا تھا کہ اب ایسا ہوتا ہے کہ اداکار پروڈیوسرز کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں یا پھر پروڈیوسر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ کس اداکار پر سرمایہ کاری کی جانی چاہئیے؟۔