میڈیا ورکرز پر قیامت کب تلک

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
عبدالحسین آزاد عبدالحسین آزاد

دنیا کو گلوبل ویلیج میں تبدیل کرنے میں میڈیا کا کردار کلیدی ہے،گھر بیٹھے چند سکینڈز میں پوری دنیا کے حالات سے آگاہی میڈیا کے ہی ذریعے ممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے۔

میڈیا وہ طاقت رکھتا ہے جو کسی طوفان،آندھی سے کہیں زیادہ ہے،طوفان آندھی،سیلاب کسی کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو ں یا نہ ہوں مگر میڈیاسے پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر دنیا کے جدید ترین شہروں میں رہنے والے سب متاثر ہیں،یعنی وہ لوگ جو طوفان،سیلاب،آندھی اور بارش سے متاثر نہیں وہ بھی میڈیا سے متاثرہیں۔میڈیا میں سوشل،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جہاں قوانین کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں وہا ں سوشل میڈیا پروپیگنڈا کا ایک بہترین ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن مصدقہ خبر کا ذریعہ نہیں۔سوشل میڈیا میں چیک اینڈ بیلنس کا بھی کوئی نظام نہیں اور نہ ہی جھوٹی خبروں کے پھیلاو کے خاتمے کے لیے ریاست اور حکومت کوئی خاطر خواہ اقدامات کررہی ہیں،یہی وجہ ہے دن بدن سوشل میڈیاکا غلط استعمال بڑھتا جارہاہے۔لیکن آج ہم سوشل، الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کی خبر وں کی نوعیت،معیار پر بات نہیں کریں گے،بلکہ آج ہم بات کریں گے خبروں،رپورٹس،ٹکرز اور نیوزاسٹوریز کو ہم تک پہنچانے والے،خبروں کو مختلف ذرائع سے حاصل کرنے والے،عوام کی آواز بننے والے،پرُ خطرحالات میں بھی دن رات ایک کرنے والے،جان جوکھوں پر ڈال کرفیلڈ میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز کی،جو سب کی آواز بنتے ہیں مگر ان کی کوئی آواز نہیں بنتا،جو سب کی سنتے ہیں،ان کی کوئی نہیں سنتا،جو سب کے حقوق کے لیے لڑتے ہیں مگرا ن کے اپنے سلب شدہ حقوق کے لیے لڑنے والا کوئی نہیں،میڈیا ورکرز جو ہر طرف نظر رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی کرپشن کرے،میر ٹ کی پامالی کرے یا عوام کے حقوق پر ڈھاکہ ڈالے تو یہ سب ان سے برداشت نہیں ہوتا مگر ان کے اپنے حقوق پر جو شب خون مارا جاتا ہے،اس کی کسی کو پرواہ نہیں، مالکان کے ناجائز مطالبات،ڈیوٹی ٹائم سے بھی زیادہ وقت پرکام لینا اورساتھ تمام مراعات سے محرومی،حد تویہ ہے کہ چھے، چھے مہینوں تک بغیر تنخواہ کے مفت میں خدمات انجام دینے پر مجبور ہیں،انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان کی ایک خبر،ان کی ایک بات راس نہ آئیے اور کب انہیں گھر بیٹھنے کا کہہ دیں،بیرونی دنیا میں حقائق کے لیے چیخنے والے،کڑے اور سخت سوالات سے حکومتی اور انتظامی عہدیداروں کو پریشان کرانے والے یہی صحافی اپنے آفس میں بھیگی بلی بن جاتے ہیں،انچارج اور باؤ س کے سامنے بات کرنے سے پہلے سو سو مرتبہ سو چ رہے ہوتے ہیں،کہیں کوئی بات ان کی شایان شان نہ ہو اور وہ برا مان نہ جائیں،عالی جناب کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو،اور فیلڈ میں کسی کی ایک نہ سننے والے آفس میں باؤس،انچارج اوردیگر ایرے غیرے کی بغیر کسی وجہ کے بھی سننے کا مادہ رکھتے ہیں۔یہی وہ صحافی اور میڈیا ورکرز ہیں جو اگر کہیں کوئی فیکٹری،کمپنی کا مالک ملازمین کو تنگ کرے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر ان کا اپنا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کے مایہ ناز اینکرز اپنے ٹالک شوز میں حقائق کو الٹ پلٹ کرسکتے ہیں،وزرا ء کو ان کی وزارتوں سے مستعفی ہونے یا عہدہ سے ہٹانے پر مجبور کراسکتے ہیں مگر کیوں ان نامی گرامی اینکرز کو جو ماہانہ 30سے 60لاکھ تک تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں ان کے اپنے آفسز میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز نظر نہیں آرہے،کیوں؟ دنیا جہاں کے مظالم پر بولنے والے یہ نام نہاد اینکرز اپنے میڈیا مالکان کے خلاف کیوں نہیں بولتے،ملکی اداروں،سالمیت اور وقار کو تاراج کرنے والے میڈیا اینکرز اپنے مالکان مافیاز کے خلاف چپ کیوں ہیں۔حالانکہ ان اینکرز کو اس بات کا علم ہے کہ ان کے آسمان کو چھوتی ریٹنگ کے پیچھے،ان ہی میڈیا ورکرز کی رپورٹس،نیوز اسٹوریز،ریسرچ اسٹوریز،فیلڈ ورک اور مواد ہے جو دراصل محنت ان کی ہے مگر نام نکلتا ہے ان نام نہاد میڈیا اینکرز کا،انہیں تو سب بنا بنایا ملتا ہے،توا ن کو پروڈیوسر،نیو ز ایڈیٹرز،سب ایڈیٹرز،اسائمنٹ ایڈیٹر،اور مختلف بیٹ کے رپورٹرز سے ان کا کیا واسطہ۔ان کی کوریج کرنے والے کیمرہ مین اور ٹیکنیکل ٹیم کی بھی کوئی پرواہ نہیں،انہیں تو بس اپنی ہی پڑی ہے،اور دعویٰ کرتے وقت زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں،کوئی انہیں جھوٹا کہے تو معذرت کہنے پر مجبور کرالیتے ہیں،اگر یہ اتنے ہی سچے ہیں حق کا ساتھ دینے والے ہیں اور ان میں ہمت ہے تو اپنے کسی ٹالک شوز میں چند سکینڈ ز کے لیے بھی ہزاروں میڈیا ورکرز کے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھاتے،مالکان کے ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے دھرنے کی دھمکی دینے والے،میڈیا ورکرز کے حقوق کے لیے خاموش کیوں ہیں۔میڈیا مالکان اور حکومت کی لڑائی میں آخر کب تلک میڈیا ورکرز پستے رہیں گے،حکومت اشتہارات بند کردیتی ہے یا ریٹس کم کر دیتی ہے تو میڈیا مالکان حکومت کو دباو میں لانے کے لیے میڈیاورکرز کی تنخواہیں روک دیتے ہیں تاکہ میڈیا ورکرز کو حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور کیا جائے،اداروں کے خلاف منظم سازشیں کرنے والا میڈیا کیوں ملازمین کے حق میں آواز نہیں اٹھاتا،پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی بات کرنے والوں سے کوئی سوال پوچھے کہ پاکستان میں میڈیا اگر پابندیوں کی زد میں ہے تو پھر میڈیا کا ہر چینل اپنی مرضی کے مطابق،سیاسی،مذہبی،معاشرتی اور انتظامی شخصیات کی جب چاہئے اپنے مقاصد کے لیے پگڑیوں کو اچھالتا ہے تو اس وقت میڈیا کو پابندی یاد کیوں نہیں آتا،آخر کونسی آزادی مانگ رہے ہیں یہ لوگ۔خیر میڈیا آزاد رہے یا پابند فائدہ ان ہی میڈیا مافیا مالکان کا ہے جو ہر جائز ناجائز طریقے سے لوٹو اور جمع کرو کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔خدا را رحم کیجیے ان میڈیا ورکرز پر جن کی تنخواہ بمشکل 15سے 40ہزار تک ماہانہ ہے وہ تین سے چھے مہینوں تک تنخواہوں سے محروم ہوں گے تو ان کا گزر بسر کیسا ہوتا ہوگا،ہمدری اور انسانیت کے درس دینے والے اینکرز سے بھی گزارش ہے خدا کے لیے تھوڑا ساشرم کرو۔کب تک یہ ملازمین ظلم عظیم سہتے رہیں گے،میڈیا ورکرز بھی گھر،بال بچے رکھتے ہیں،میڈیا مالکان کے خاندان کا کوئی فرد بیمار ہو،مصیبت آجائے،جیل چلا جائے،مقدمے کا سامنا ہو،یا کچھ بھی ہو اس میں میڈیا ورکرز کو کیوں سزادی جاتی ہے تنخواہ روک کر،پاکستان کے ٹاپ 5کے میڈیا چینلز جو کروڑوں روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں وہی چینلز میڈیاورکرز کو تنگ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ان ہی جملوں کے ساتھ قلم بندکرنے جارہاہوں کہ میڈیاورکرز کی زندگی بازار حسن کی ان حسیناؤں کی مانند ہے جو بظاہر خوبصورت،دلفریب اور پرکشش نظر آرہی ہیں مگر درحقیقت اندر سے اتنی ہی کھوکھلی اور کھنڈر بنی ہوئی ہیں۔

install suchtv android app on google app store