پاکستان کے مسائل حل اور ہمارے اجتماعی رویے

پاکستان کا اصل مسئلہ موجودہ بوسیدہ سرمایہ داری نظام ہے۔ فائل فوٹو پاکستان کا اصل مسئلہ موجودہ بوسیدہ سرمایہ داری نظام ہے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ موجودہ بوسیدہ سرمایہ داری نظام ہے۔

گزشتہ ستر سالوں سے اس ملک ملک میں کئی ایک سیاسی گروپس برسراقتدار رہ چکے ہیں۔اور ہر گروپ ایک ہی نعرہ لیکر میدان میں آیا کے پاکستان کے اصل مسائل کا حل تو میرے پاس ہے اور میں جانتا ہوں کہ مسائل کیا ہیں اور ان کو کسے حل کرنا ہے میں ہی اس نظام کو ٹھیک کرونگا اور ہر بار عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے دعوے کے ساتھ اتے ہیں اوراس کے بدلے میں ان کے ارمانون کا خون کر کے لوٹا دیتے ہیں۔مسائل جوں کے توں ہیں۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔

کسی بھی سماج میں مسائل کاپیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں دنیا میں ہر قوم کو مسائل کا سامنا رہاہے،اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں لیکن وہی قوم اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے،جو ایک مربوط واضح اور دو ٹوک نظریہ رکھتی ہو۔یہ باشعور معاشراہ ہے۔ ہمارے معاشرے کا سب سے روگ یہی ہےکہ پورے کا پورا سماج فکری انتشار میں مبتلا ہے۔ہر طرف مسائل کا امبار ہے ۔مسائل اس قدر ذیادہ ہیں کے کسی کو نہی سمجھ ارہی ہے کہاں سے شروع کریں اور کہاں پہ ختم ہوجاے۔ ،اور دوسری طرف ان مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی راستہ نظر نہیں آ تا۔سب سے بڑھ کر یہ کے مسائل کی فہرست ہر مکتبہ فکر کی اپنے ذہن کے مطابق ہے۔

سیاسی جماعتوں جو حزب اختلاف میں ہوتی ہیں کا کہنا ہےکہ ہمارے پارٹی کی حکومت نہیں اسلئے یہ مسائل ہیں۔ان کے نزدیک مسائل کی جڑ انکی پارٹی کا اقتدار میں نہ ہونا ہے اور جب انکی اپنی حکومت بن جاتی توپچھلی حکومت کے دور کی حکومت پرنااہلی اور مفاد پرستی کا رونا رو کر اپنے پانچ سال پورے کر لیتی ہے۔اپ تجزیہ کریں کیا گزشتہ ستر سالوں سے یہی کچھ نہی ہوتا رہا ہے؟ اج بھی اپ دیکھیں تو ہر طرف یہ سائل کا امبار ہے ایک دوسروں کو چور کرار دینا ایک معامولی سی بات ہے۔ سیاسی مذہبی جماعتیں کا نقطہ نظر یہ کہ جب اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا مسائل حل نہیں ہو سکتے۔اور اسلام نظام کے بارے ہر ایک جماعت کا اپنا ہی الگ اور فرقہ وارانہ نقطہ نظر ہے۔جب اپ ان سے سوال کرتے ہو کہ بھائی اپ بھی اس نظام کا جصہ ہیں تو وہ کہتے ہمیں ایک دفع حکومت دو ہم۔ بدل دیں گے۔ جب سوال کیا جاتا ہے اپکے پاس کیا پلان کے اپ معاشی نظام کو کیسے بدلو گے سیاسی نظام کو کیسے بدلو گے عدلتی نظام کو کسے بدلو گے تو ان کے پاس کوئی جواب نہی ہوتا۔

اصل میں ان مذہبی جماعتوں کا مقصد صرف دین کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کےلئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔اس لئے جب یہ جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ بنتی ہیں تواسلام کوبھول کر اسی ظالمانہ نظام کا تحفظ کرتی ہیں۔اصلاحی مذہبی جماعتیں تو ان مسائل کو تقدیر کے جوڑ کے اس ظالمانہ نظام کے ساتھ صلح کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اب آئیے ذرا سکالر اور صحافی کی طرف وہ نیوز چینلز پر بیٹھ کر اپنے ذہنی اختراع کے مطابق مسائل کی ایک لمبی فہرست بتائیں گے اور اپنےہی خیالات و افکار کے مطابق اس کا حل پیش کرتے ہیں۔اب اسی صورت حال میں پورا سماج کنفیوژن کا شکار ہے۔ موجودہ دور میں عوان کو گمراہ کرنے میں صحافی اور ان سکالر کا بڑا کردار ہے۔ یہ لوگ عوام کو تقسیم کرنے سب سے اہم ہتھیار ہیں۔

ایسے میں ایک عام شہری کس کی بات مانیں اور کس کی اتباع کریں۔اگر معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا علم ہو تو معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔عمرانیات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشرہ بنیادی طور پر تین عناصر سے مل کر بنتا ہے۔

فکر و نظریہ ،سیاسی نظام اور معاشی نظام اب ان تینوں عناصر کو سامنے رکھ کر ہم اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں ہے کیوں کہ جس نعرے پر ملک حاصل کیا کہ ہماری فکر ونظریہ، معاشی نظام اور سیاسی نظام اسلام کا ہو گا ۔لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا ہے جو صرف نظام کے کلرک پیدا کرتاہے۔اس تعلمین نظام میں نوجوان نسل کو تقسیم در تقسیم کیا گیا امیر کے الگ اور غریب کے الگ تعالمی نظام ہے جو کہ نو آبادیاتی دور کا تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سامراج سے مرعوبیت کے حوالے سے ذہن پیدا کرتا ہے۔ جو ہمارے نوجوان نسل میں جرات اور سماجی شعور پیدا کرنے کی بجائے بزدلی اور پست ہمتی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اج کا نوجوان جسے ہی ڈگری سے فارغ ہو کے میدان میں اتا ہے وہ اس قدر تقسیم کا شکار ہوتا ہے۔

سیاسی نظام کی حالت بھی ایسی ہی ہے،آ ج بھی ہمارے ہاں مکاولی کی سیاست رائج ہے۔ جس میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بولنا سیکھایا جاتا ہے۔ یہ نظام جھوٹ دھوکہ دہی اقربا پروری اور بین الاقوامی سامراج کی آلہِ کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اس وقت ہمارا پورا سماج بدامنی اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔جمہوریت کے نام پر فرسودہ سرمایہ داری نظام نافذ ہے۔

پوری اسمبلی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور وڈیروں کے گٹھ جوڑ ہے اس نام نہاد جمہوریت نے عوام کو سوائے بدامنی دہشتگردی اور قتل و غارت گری کچھ نہیں دیا۔کسی غریب انسان کو اس نظام میں سیاست تو دور الیکشن کے کاغزارت تک جمع کروانا ممکن نہیں ہے۔ اور ہمارا معاشی نظام تو ایڈم اسمتھ کی فلاسفی پر مبنی ہے۔جس کا اصول ہی یہی ہے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاے۔ ایڈیم سرمایہ دارانہ نظام کا بانی ہے۔سرمایہ دارنہ نظام معیشت معاشرے میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری قائم کر کے 98% طبقے کو محروم معیشت بناتا ہے۔سماج میں غربت و افلاس اور بے روزگاری پیدا کرتا ہے سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے بجائے عالمی سامراج کے قرضوں کے بوجھ تےتلے دبا دیتا ہے۔

آج بھی دنیا کی نوے فیصد سرمایا چند لوگوں کے پاس ہے۔ کسی بھی سماج کی ترقی یا زوال کا اندازہ ان تین عناصر کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے ۔ یہ تیں وہ بنیادی عنصر ہیں جس سے ہم ایک سماج کے بارے سمجھ سکتے ہیں ۔ہماری سوسائٹی کے یہ تینوں زوال کا شکار ہیں۔لیکن ہمارا مجموعی مزاج یہ بن چکا ہےکہ بجائے ان مسائل کو سنجیدگی کی سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی طرف بڑھیں ہم ان سے صرف نظر کر کے اپنی ذاتی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی ناکام کوشش میں پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ اور یا پھر ان مسائل کو تقدیر کا لکھا مان کر نظام سے مصالحت کر لیتے ہیں۔
@Rohshan_Din

install suchtv android app on google app store