"اہم فیصلے ۔۔۔۔۔ ترقی کی نئی راہیں ۔۔۔۔۔ خوشحالی کی ضامن"

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
"کالم نویس" محمد سلیم ناصر "کالم نویس" محمد سلیم ناصر

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:

اس مختصر سی آیتِ کریمہ میں کرہ ارض پر بسنے والی تمام قوموں اور انکے حکمرانوں کے لیے ترقی کا راز پوشیدہ ہے اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو اس آیت کے زریعہ سے ترقی کا راستہ دیکھا دیا ہے اب ہم انسانوں پر لازم ہے کہ ہم ترقی کی راہوں کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے سب سے پہلے تو ہمارے حکمرانوں کو غور و فکر کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "کہ دینِ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے" اس چھوٹے سے جملے میں بھی بہت غور طلب بات ہے، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ دینِ اسلام صرف مسلمانوں کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے، یہاں راقم قارئین کی تھوڑی سی توجہ چاہتا ہے جزاء اور سزا کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جبکہ نیکی اور بدی کا اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی دے دیا وہ کیسے بھلا عقل و شعور کی نعمت سے نواز کر اللہ تعالیٰ کی ہر لمحہ حمد و ثناء کرنے والی نوری مخلوق سے بھی بڑھ کر اشراف المخلوقات کا رتبہ دیکر فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو حضرت آدم علیہ اسلام کو۔ سبحان اللہ بڑا رحیم و کریم ہے میرا پروردگار، "اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"
راقم اپنی اصل بات پر واپس آتا ہے انسان افضل ہو گیا تمام مخلوقات میں نیکی بدی کے راستے بتا کر پسند نا پسند کی خواہش بھی عقل اور دل میں رکھ دی اچھائی برائی دونوں سامنے ہیں سچ جھوٹ میں فرق کو تولنے کا میعار بھی عقل اور آنکھوں میں واضح کر دیا، ظلم کے خلاف زبان میں بولنے کی طاقت بھی رکھ دی جب سب کچھ انسان کے اندر رکھ دیا تو پھر کسی بھی ناکامی پر شکوہ کیسا اللہ تعالیٰ سے؟ تو قارئین ناکامی کیوجہ تلاش کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے جب ہم کسی بھی کام میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو فوراً ناامید ہو کر رب سے شکوہ شکایت کرنے لگ جاتے ہیں یہ المیہ ہے ہم میں آج بھی 95فیصد افراد ناکامی پر شکوہ اللہ تعالیٰ سے ہی کرتے ہیں مگر اس چھوٹے سے جملے پر غور نہیں کرتے کہ" دینِ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے" یورپ، امریکہ، ایشاء کے بہت سے ممالک جو غیر مسلم ہیں وہ ہم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں یہاں تک کہ ہندوستان بھی اب ہم سے زیادہ ترقی کر چکا ہے جہاں آئے روز مسلمانوں پر ظلم وستم ہوتا ہے اس ترقی کیوجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ان سب ممالک نے دینِ اسلام کوقبول نہیں کیا مگر اسلام کے ضابطہ حیات کو قبول کر لیا اسلام کے ابتدائی دور سے جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اس کے نتیجے میں غیر مسلم قوموں کی آنے والی نسلوں نے مسلمانوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے قرآنِ پاک کی تعلیمات کو پڑھا اور اس پر عمل کیا جو ضابطہ حیات کا راز اللہ تعالیٰ نے قرآن کے زریعہ بتایا وہ انھوں نے اپنا لیا تو وہ کامیاب ہو گے سب سے پہلی بات جو غیر مسلم قوموں کے حکمرانوں نے اپنائی وہ حقوق العباد کی مساوی تقسیم ہے پھر عدل و انصاف پر عمل، یہاں پر قارئین کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنگِ احد میں فتح شکست میں کیسے بدلی، نبی کے حکم کی نافرمانی اور دنیاوی خوہشات یعنی مال و زر کی لالچ یہ پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ابتدائی دور میں سمجھایا کہ اگر میری تعلیمات کو رد کرو گے اور دنیا کی لزتوں میں پڑو گے تو بربادی مقدر بن جائے گی جنگِ احد کی تفصیلات کو جاننے کے لیے بہت سی اسلامی کتب اور انگریزی کتب ہیں جن کو قارئین پڑھ سکتے ہیں۔ میَں واپس اپنی بات پر آتا ہوں ہم اور ہمارے حکمران ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکے اگر سمجھ چکے ہیں تو پھر ڈھٹائی کی انتہاء پر ہیں ہم جب اسلام پورے عرب میں پھیل چکا اور اللہ کے نبی نے گردونواح کے غیر مسلم قبیلوں اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر اسلام کی دعوت کا سلسلہ شروع کیا تو ان علاقوں میں حد بندی کی تاکہ وہاں حقوق کی اور تمام وسائل کی مساوی تقسیم میں کسی کی حق تلفی نہ ہو اور پھر خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ بڑھتا گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اسلامی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ادوار میں اسلام کی روشنی مزید علاقوں تک پھیلی اتنی بڑی سلطنت کے نظام کو چلانے کے لیے علاقائی حد بندیاں کی گئیں نئے صوبے بنائے گے ان کو کنٹرول کرنے کے لیے گورنرز کو نافز کیا گیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو تعمیرو ترقی کے نئے منصوبے بنائے گے ہر صوبے میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے گراں قدر تعمیراتی کاموں کی تکمیل کا آغاز کیا گیا تاکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کر کے مستفید ہو سکے۔ اگر میَں بات کروں موجودہ ترقی کے زمانہ کی تو ماضی کی نسبت اب تو ہر کام میں جدید سہولیات میسر ہیں۔ مگر ہم پھر بھی غیر مسلم قوموں پر انحصار کیے بیٹھے ہیں تقسیم ہند سے قبل مولانا ظفر علی خان نے خوب کہا تھا کہ

                خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
              نہ ہو خیال جسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا 

تو جنابِ محترم عزت مآب ہمارے حکمران طبقے کو غور وفکر کرنا چاہیے نہ ہی اب ابابیل آسمان سے آئیں گے نہ ہی یہ فرعون کی ظلمت کا دور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا انتظار کریں کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا یہ محض افسانوی قصے کہانیاں اور کتابی جملے ہیں حقیقت کو تسلیم کرنا سیکھیں اور ہمارے حکمران بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لاہور، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی کی ترقی کے ریڈیس سے باہر نکلیں قیامِ پاکستان کے وقت آبادی تقریباً 5 یا 6 کروڑ کے لگ بھگ ہو گی اب آبادی 25 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے اس وقت بھی 4 صوبے تھے اور اب بھی 4 صوبے ہیں اور ترقی کیساتھ عوام کی فلاح وبہبود کے جتنے منصوبے ہیں وہ بھی 4 شہروں تک محدود ہیں پھر حکومتی تجزیہ نگار چینلز پر بیٹھا کر کس ڈھٹائی سے کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ذکر کرتے ہیں حکمران طبقے کے خوشامد پرستوں کی زبان پر کاغزی چمک اور دنیاوی مراعات کا تالا جو لگا دیا گیا ہے اس لیے حقیقت کو بیان نہیں کر سکتے کہ ان شہروں کی آبادی میں اضافہ یہاں کی مقامی آبادی کا نہیں ہے بلکہ دیگر پسماندہ شہروں سے روزگار، تعلیم و دیگر ترقی کی سہولیات کو دیکھ کر لوگ یہاں آکر آباد ہونا شروع ہو گے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے اگر یہی سہولتیں ہمارے حکمران دیگر پسماندہ شہروں کے بسنے والے شہریوں کو فراہم کرتے حقوق اور وسائل کی مساوی تقسیم کرتے تو آج ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتے۔ ترقی کے اس سفر میں نئے صوبوں کا قیام بہت ضروری ہو چکا ہے اب حکومت کو ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اہم فیصلے کرنے ہوں گے نئے صوبے وقت کی ضرورت ہیں جن پر حکومتی مشینری کو ایک ہو کر لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جس سے تعلیم، صحت، اور روزگار کی مساوی تقسیم میسر ہو گی ہماری زراعت بہتر ہوگی جس سے انڈسٹری کے شعبہ میں بہتری کیساتھ بڑھوتری آئے گی عوام کو روزگار کے مواقعے میسر ہوں گے بے روزگاری کی شرح میں کمی ہو گی اداروں کی تقسیم سے پڑھے لکھے نوجوان مرد و خواتین کو نوکریاں ملیں گیں اور ملکی معیشت بھی مظبوط ومستحکم ہو گی اور عوام کا میعارِ زندگی بلند ہو گا اور ہم بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوں گے۔ اگر ہم اور ہمارے حکمران یہ سوچ کر خوشی فہمی میں ہیں کہ پاکستان رمضان المبارک کی 27 ویں رات کو معرضِ وجود میں آیا تھا تو یہ خوش فہمی جنگِ احد کی تفصیل پڑھ کر دور کر لیں کیونکہ دین کو مفادات کے ساتھ جوڑنے سے دعاؤں میں قبولیت کا اثر نہیں رہتا۔

install suchtv android app on google app store