میں نے مزدور کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
ساغر سُرموی ساغر سُرموی

شیخ سعدی اپنی مشہور زمانہ کتاب گلستان میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ قبل اسلام دور میں سخاوت کے لئے مشہور حاتم طائی سے کسی نے کہا کہ اے حاتم کیا اس دنیا میں تم سے زیادہ سخی یا نیک شخص اور کوئی ہو گا؟

حاتم طائی نے فوراً ہاں میں سرہلایا۔ وہ شخص یہ سوچ کر حیران ہوا کہ بھلا وہ کیسا انسان ہوگا جو حاتم طائی سے زیادہ نیک ہو۔ اس نے تجسس سے پوچھا وہ کون ہے اور کہاں ہے۔ حاتم طائی نے کہا کہ ایک دفعہ میرا گزر کسی جنگل سے ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا لکڑہارا پسینے میں شرابور لکڑی توڑنے میں مگن ہے۔ جبکہ انہی دنوں میرے گھرپر چالیس اونٹ ذبح کرکے ہر خاص و عام کے لئے فری لنگر کا اہتمام تھا۔ میں نے اس بوڑھے لکڑہارے سے پوچھا ۔ بابا جی حاتم طائی کے گھر پر دعوت عام ہے اور سارے لوگ وہاں مفت کھانا کھا رہے ہیں اور آپ یہاںاتنی مشقت اٹھا رہے ہیں؟ اس پر باباجی نے حاتم کو جو جواب دیا شیخ سعدی نے اسے یوں منظوم کیاہے۔

ہر کہ نان از عمل خویش خورد
منت ِ حاتمِ طائی نہ برد

یعنی اس نے کہاکہ جو آدمی خود محنت سے کماکے روٹی کھا سکتا ہے وہ حاتم طائی کی منت کیوں اٹھائے۔ حاتم طائی نے یہ واقعہ سنا کر اس شخص سے کہا کہ میرے نزدیک نیکی میں اس محنت کش بوڑھے کا مقام مجھ سے کئی درجے بلند ہے۔ دین اسلام میں بھی محنت ، مزدوری اور کسب حلال کوبڑی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید کی مشہور آیت تو سب کو یاد ہے۔ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرے۔یہ تو ہمارے مولوی حضرات کا ترجمہ ہے۔ اگر آپ ذرا غور سے پڑھیں تو اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے۔ کہ انسان کے لئے ہرگز نہیں ہے، اس کے علاوہ جس کے لئے وہ کوشش کرے۔ اب آپ ذرا مفسرین قرآن کے طریقے سے ہرگز اور نہیں کے درمیان بریکٹ میں' جائز 'کا لفظ لگا کر ترجمے پر ذرا دوبارہ غور فرمائیں۔ توآیت کا اصل مفہوم واضح ہو جائے گا۔یہ معروف حدیث بھی بچے بچے کو یاد ہے کہ محنت سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔ ہمارے ہر نوٹ پر نقش بابائے قوم کی تصویر بھی چیخ چیخ کر یہی کہہ رہی ہوئی کہ حصول رزق حلال عین عبادت ہے۔ لیکن اسلام کی ان بنیادی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر مذہب کے نام نہاد منیجروں نے مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ کیا ہے۔ وہ ایسے کہ انہوں نے ہر اس عمل کو عبادت کی فہرست سے خارج کر دیاہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہو اور جس کے ثمرات ان کی اپنی جیبوں تک نہ پہنچتے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارے معاشروں میں محنت مزدوری کرنے والے سفید پوش لوگوں کوکمّی اور بے وقوف سمجھ کر حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد جب ہر کام کے لئے مشینین ایجاد ہونے لگیں تو بنی نوع انسان کا ذہن بھی مشینی ہوتا چلاگیا اور وہ ہر کام کو مشینوں کی طرح شارٹ کٹ طریقوں سے کرنے کا عادی ہونے لگا ۔ ا س طرح محنت مزدوری کرنے والوں کو نہ صرف احمق اور گنوار قرار دیا جانے لگا بلکہ ان کی بھر پور حوصلہ شکنی بھی کی گئی۔ اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے کھانے، پینے اور دیگر ضرورت کی چیزوں پر غور کریں تو ان میں اکثر اشیاء کی تیاری میںسب سے بڑا ہاتھ مزدوروں کا ہی ہوگا۔ لیکن ہم پھر بھی ان حق حلال کی کمائی کھانے والوں کی کوئی قدر نہیں کرتے۔ ہم میں سے جو لوگ ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں ان میں اپنے فرائض کوکماحقہ پورا کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہم اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کتنی ڈنڈی مارتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا کہ ہم کام کریں یا نہ کریں ہمیں تنخواہ پوری ملتی ہے۔کرونا کی وبا سے پیدا شدہ موجودہ ہنگامی حالات میں کتنے ملازموں کو کئی مہینوں سے گھر بیٹھے مفت ہی تنخواہ مل رہی ہے۔ انہی عیاشیوں کی وجہ سے شایدہمیں مزدوروں کے حقوق اور ان کی مجبوریوں کا احساس نہیں ہوتا اور یہ سوچ کرہم انہیں بے وقوف سمجھتے ہیںکہ آخر یہ لوگ بھی کمانے کے لئے کوئی شارٹ کٹ کیوں مارتے ۔ کسی بھی قسم کی قدرتی آفات یا ہنگامی حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بھی بے چارے مزدور وں کا ہی ہوتا ہے۔ یہ بچارے جس دن کام پہ گئے تو دیہاڑی لگ گئی لیکن کوئی چھٹی ہوئی تو ملازمین کے برعکس ان کی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ کہیں گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑ جائے ۔آپ ستم ظریفی کی انتہا ملاحظہ کیجئے کہ یکم مئی کو بھی ہر سال ہم مزدوروں کے حقوق کے نام پر چھٹی کر کے گھر میں خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہتے ہیں لیکن ان بچارے مزدوروں کی اکثریت اپنے حقوق سے بے نیاز ہو کر پیٹ پوجا کی خاطراپنے کام میں مصروف ہوتی ہے۔ اسی لئے شاعر مشرق نے کہا تھا۔

تو قادر و عادل مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات

محترم قارئین آج مزدوروں کاعالمی دن ہے۔ ہنگامی حالات اور لاک ڈاون کے باعث پوری دنیا میں مزدور طبقے کی دیہاڑی ٹھپ پڑی ہے۔ رمضان کے ان مبارک ایام میں آج ہمیں یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ جن مزدوروں اور مجبوروں کو افطار و سحری بھی پیٹ بھر کر میسر نہیں ان کی دل کھول کر مدد کی جائے ۔ ہمیں لوگوں کواس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اصل صدقہ وہ ہے جس سے خلق خدا کا بھلا ہو۔ مولوی کے نزدیک خدا کی راہ سے مراد وہی راستہ ہے جو سیدھا ان کی جیب تک جاتاہے۔ بدقسمتی سے انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق مذہب کے خود ساختہ ٹھیکداروں کی پیدا شدہ انہی غلط فہمیوں کی وجہ سے ہم میں جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ بھی پہلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کے پیسے خدا کے گھر کا یا کسی مولوی پر خرچ ہو تو ہو لیکن اس سے اللہ کے کسی غریب بندے کو فائدہ ہوتا نظر نہ آئے۔ یہ رجحان یا فیشن بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ لوگ بوڑھے والدین کو بے سہارا، بچو ں کو حالات کے رحم و کرم اورپڑوسیوں کو بھوک سے مرتا چھوڑ کر اللہ کو خوش کرنے کی نیت سے حج عمرے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔کسی نا معلوم شاعر نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا۔

تم نے رشوت کی کمائی سے مدینہ دیکھا
میں نے مزدور کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا

install suchtv android app on google app store