بڑھتی آبادی اور مسائل

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
 ثاقب زاد ثاقب زاد

دنیا بھر میں بڑھتی آبادی اور کم ہوتے وسائل نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کو پریشان کیا ہے وہیں ترقی پذیر ممالک کیلئے مسائل کی صورت خطرے کا الارم بجا دیا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق ترقی یافتہ ممالک بہتر انتظام و انصرام کی وجہ سے ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک نہ صرف بارڈر لاین پر ہیں بلکہ حکمت عملی کی کمی اور ناکافی انتظامی مجبوریوں کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

جس کو بھانتے ہویے ترقی یافتہ ممالک پر بھی دباو بڑھ رہا ہے ۔ عالمی ادراہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھوک کی وجہ سے بین الاقوامی ہجرت میں دو فیصد اضافہ ہوا ہے با الفاظ دیگر کم ترقی یافتہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی جانب ہجرت ہوئی ہے۔ رپورٹ میں ہجرت کے بڑھتے رحجان کوموسمیاتی تبدیلی، شرح غربت میں اضافہ اور عالمی تنازعات کو وجہ خاص قرار دیا گیا ہے۔ غربت کی وجہ سے کرہ ارض پر تقریبا بیاسی کروڑ افرادغذائی قلت سے کم خوراکی اور بھوک کا شکار ہیں۔

عالمی دنیا کو غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے عرصہ پندرہ سال درکار ہیں مگر ان پندرہ سالوں میں اہداف کے حصول کیلئے عالمی تنازعات، سست اقتصادی ترقی اور موسمی تغیر آڑے ہیں۔ دوسری جانب پیشتر ایشیائی اور افریقی ممالک میں آبادی میں اضافہ کے ہوشربا اعدادو شمار بھی اہداف کے حصول میں پریشان کن ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قابو پانے اور دہشت گردی کی عالمی لہر نے اقوام عالم کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ جنوبی ایشیا مشرق وسطی اور کئی مغربی ممالک نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اخراجات میں اضافی بوجھ برداشت کیا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔ جنگی صورتحال اور سرحدی اور نظریاتی تنازعات کی وجہ سے آبادی کا وسیع تر حصہ عملی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا یا عضو معطل ہو کر رہ گیا۔ وہیں غذائی ضروریات کیلئے کئے گئے اقدامات کو بھی نقصان پہنچا۔ انسانی سمگلنگ اور انسانی حقوق کی پامالی سمیت کئی مسائل جنگ زدہ علاقوں میں آفریت بن کر ابھرے۔

ماہرین کے مطابق کرہ ارض پر موجود بنی نوع انسان کو وسائل کے استعمال اور متبادل پر سوچ بچار کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات کی ہنگامی ضرورت ہے ۔ خوراک کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک طرف بھوک کی شدت ہے تو دوسری جانب امرا کی کھانے کی میز پر اوسط دو افراد کا اضافی کھانا ضائع ہو رہا ہے۔ مختلف تقاریب، ہوٹلوں اور صنعتوں میں اضافی کھانے کے ضیاع کا مشاہدہ عام ہے ۔ اس کی روک تھام کیلئے نہ صرف جامع قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ اس کے متبادل کا انتظام بھی ضروری ہے۔

دریاوں کے پانی کے اوسط ضیاع کو موثر حکمت عملی سے سمندر میں ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے عوامی شعور و اگاہی کلیدی حیثیت رکھتی ہے ماہرین کے مطابق کمزور معیشت کے حامل ممالک پر مضبوط معیشت رکھنے والے ممالک کا اثر بھی وسائل میں ناہمواری کا باعث بنا ہے۔ چند طاقتور ممالک نے اپنے مخصوص اہداف کے حصول کیلئے کمزور ممالک پر معاشی اور تجارتی پابندیوں سے عالمی سطح پر معاشی ناہمواری کو تقویت دی ہے۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کیلئے اقوام عالم کو مل کر معاشی ناہمواری کا خاتمہ کرنا ہو گا یہی بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

install suchtv android app on google app store