فیصلہ آپ کا!

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
وزیر ابرار حسین فائل فوٹو وزیر ابرار حسین

پاکستان مسلم لیگ (ن) گذشتہ 35 سال سے پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ رہی ہے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف 2013 میں خیبر پختونخواہ میں پہلی حکومت بنائی۔

عمران خان:

2013 میں خیبر پختون خواہ کی حکومت بنائی۔ خیبر پختون خواہ میں پولیس کو سیاسی اثر رسوخ سے آزاد کر کے فعال کیا۔

یکساں تعلیمی نظام کا نفاظ  
گورنمنٹ اسکولوں کے نظام کو بہتر کیا۔ تقریباََ 68 ہزار طالب علم پرائیویٹ اسکولوں سے گورنمنٹ اسکولوں میں آئے۔

350 منی ہائیڈرو پراجیکٹ لگانے کا دعواہ کیا تھا۔ 237 مکمل کیے۔
4 چھوٹے ڈیم بنائے۔ ان مقامات کے نام درج ذیل ہیں۔
(1) بونیر، (2) کالام، (3) کرک، (4) چارسدہ

ایک ارب 18 کروڑ درخت لگائے۔

10 عدد نئے اسپتال بنائے۔ لیکن زیادہ بہترین بات یہ ہںے کہ پرانے اسپتالوں کو بہت بہتر کیا۔

12000 نئے ڈاکٹرز کی بھرتیاں اور متاثر کن پرفارمنس تو یہ رہی کہ 240 پاکستانی ڈاکٹرز کو بیرونِ ممالک سے بلواکر نوکریاں دی گئیں۔

صیحت کارڈ کا اجراء کیا جس سے خیبر پختون خواہ کا کوئی بھی شخص ایک لاکھ تک کا علاج مفت کروا سکتا ہںے۔

خیبر پختون خواہ میں ٹورازم کو فروغ دیا۔

مسجد کے امام اور موؤذن کی تنخواہیں مقرر کیے۔

قرآنی تعلیمات کو تعلیمی نصاب کا لازمی جز کراونا۔ خاص کر جہاد سے متعلق تمام آیات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا۔

قرآن/ناظرہ کیلئیے اسکول میں ایک پریڈ لازمی کروانا۔

13 اضلاح میں نئے اور جدید اسپورٹس کمپلیکس بنوائے گئے۔

اپنے ہی 20 ایم پی ایز کو سینیٹ الیکشن میں کرپشن کرنے پر پارٹی سے نکال دیا۔

19000 نئے ٹیچرز کی بھرتیاں۔

نجی سود پر پابندی لگائی گئی:
نجی سود کا کاروبار کرنے پر پکڑے جانے والے کو 1000000 روپے جرمانہ اور تین سال کی قید۔

ایک عدد انٹرنیشنل یونیورسٹی ہزارہ میں جو کہ آسٹریا کی مدد سے زیرِ تعمیر ہے۔

ایک سروے کے مطابق پختونخوا میں 2013 تا 2018 تک پی ٹی آئی کی حکومت میں غربت کی شرع % 34 کم ہوئی۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی صوبائی حکومت نے موٹر وے بنائی جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بنائی۔
سوات موٹروے۔

نواز شریف:

میاں نواز شریف اور ان کا خاندان گذشتہ 35 سال سے پاکستان میں کسی نا کسی شکل میں حکومت کا حصہ رہںے۔

کارنامے درج ذیل ہیں:

قرض اتارو ملک سنوارو مہم میں پاکستانیوں کے اربوں روپے انہوں نے کس مد میں خرچ کیے کوئی پتا نا چلا۔

پاکستان میں کچھ موٹرویز کچھ سڑکیں اور لاہور شہر کو بہتر ڈویلوپ کیا۔

پاکستان میں بجلی اور پانی کی شدید قلت ہے، نا ڈیم بنا سکے نا لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر سکے۔

نندی پور پراجیکٹ پر 444 ارب ڈبو دئیے، نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔

نیلم جہلم پراجیکٹ پر 285 ارب جھونک دئیے نتیجہ پھر بھی صفر رہا۔

2013 تا 2018 تک کی حکومت میں کم وبیش 41 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا، جبکہ 2013 کے الیکشن مہم میں عوام سے کشکول توڑنے کے وعدے کرتے رہیں۔

ڈالر 88 روپے سے 124 روپے تک پہنچا کر دم لیا۔

ڈان لیکس میں فوج اور ملکی سلامتی پراپگنڈہ میں پیش پیش رہںے 1997 میں پاکستان کی عدالت عظمٰی پر حملے میں ملوث رہںے۔

کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں پاک فوج پر الزامات لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ پاکستان آرمی نے اجمل قصاب کے ذریعے ممبئی حملے کروائے۔

1990 تا 2000 ان 10 سالوں میں 5000 روپے ٹیکس ادا کیا۔

انہی کی حکومت میں لاہور ماڈل ٹاؤن میں دن دھاڑے پنجاب پولیس نے 14 لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

سونے پہ سہاگہ تو یہ ہے نا کہ باقر نجفی کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیق کی اور ایک رپورٹ مرتب کی لیکن وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت جو کہ شریف لوگوں کی تھی انہوں نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو دبا دیا باوجود لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر کے اس رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا۔

میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ انڈیا میں یہ بیان دیا کہ کارگل جنگ میں پاکستان آرمی نے انڈیا کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔

جب میری حکومت برسرِ اقتدار آئے گی تو میں آرمی سے باز پرس کروں گا۔

انہی کی سابقہ حکومت میں جس پراجیکٹ سے متعلق تحقیقات شروع ہونے لگتی تھی۔

تحقیقات سے پہلے ہی متعلقہ پراجیکٹ کا ریکارڈ جل جاتا تھا۔

جن میں نندی پور پراجیکٹ، نیلم جہلم پراجیکٹ، قائداعظم سولر پارک، روالپنڈی میٹرو پراجیکٹ، چوہدری شوگر ملز اور لاہور اورنج ٹرین کا ریکارڈ نمایاں ہے۔

انہی کی گذشتہ حکومت کے دوران پاکستان میں ایک انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو پکڑا گیا۔

جس نے بیان دیا کہ وہ چند سالوں سے پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہا تھا اور اس نے سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کو دہشت گردی کی نظر کیا۔

لیکن میاں نواز شریف نے پرائم منسٹر آف پاکستان اور نااہل پرائم منسٹر پاکستان ہوتے ہوئے کبھی بھی دھشت گرد کلبھوش یادیو کے خلاف ایک بیان دینا تو درکنار ایک لفظ تک نا کہا۔

اس کے بر عکس انڈین پرائم منسٹر اور انڈین خفیہ ایجنسی کی ایک بااثر شخصیت جندال پاکستان میں ان کے گھر آتے رہے۔

پاناما اسکینڈل میں موصوف نام آیا۔ بعد ازاں تحقیق کے ثابت ہوا کہ ان کے اثاثے ان کی آمدن سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے بلکہ ان کہ اثاثے تو ان کی آمدن سے کہیں سو گنا زیادہ ہیں۔

جب ان سے ان کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسمبلی کے فلور پر الگ تقریر کی، عدالت میں الگ بیان دیا اور میڈیا پر بالکل ہی مختلف بیان دیا۔
تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ موصوف دبئی کی ایک کمپنی کا اقامہ بھی رکھتے ہیں اور اس کمپنی میں بطور ملازم وہاں سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔

اقامہ رکھنا اور کسی ملکی یا غیر ملکی فرم سے تنخواہ لینا پاکستان کے وزیراعظم کے لیے پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق تاحیات نا اہلی لازمی ہے۔

دیگر تحقیقات کے دوران میاں نواز شریف نے تحقیقاتی ٹیم سے عدم تعاون کا رویہ برقرار رکھا۔

ڈیڑھ سال تک عدالت پوچھتی رہی کہ جناب آپ کے جو بیرون ملکی اثاثے ہیں جو کہ اربوں روپے کے ہیں وہ کیسے بنائے گئے۔

پاکستان سے پیسہ بیرون ملک کیسے گیا۔

کوئی منی ٹریل دکھا دیں کوئی پرچی کوئی کہیں پر لکھا ہوا۔

لیکن موصوف کا ایک ہی جملہ رہا۔

بچے جانتے ہیں، ابا جانتے تھے۔

ابا جانتے تھے، بچے جانتے ہیں۔

پھر کہا گیا کہ حضور بچوں سے ہی پوچھ کر بتا دیں یہ اتنی بڑی دولت بیرون ملک میں آپ کے پاس کہاں سے آئی لیکن میاں صاحب نے خاموشی کا تالا نہیں توڑا۔

قارئین اکرام آپ اب خود اندازہ لگائیں کہ ان دونوں میں سے اور کون سچا پاکستانی۔

کون محب وطن ہے اور کون ملک کا دشمن۔

کون اس عوام سے ہمدردی رکھتا ہے اور کون اس عوام کو لوٹ رہا ہے۔

اب فیصلہ آپ کا!!!

install suchtv android app on google app store