فلسطین اور بیت المقدس

فلسطین اور بیت المقدس فلسطین اور بیت المقدس

میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں فلسطین اور بیت المقدس پر لکھو!اپنی آواز اٹھاؤ!میں انکے جذبات کا احترام کرتی ہوں۔فلپ بورڈ اور گوگل پر ،اخبارات کی سائٹس اور ایپلیکیشن پر اور انسٹاگرام کی وڈیوز اور پوسٹس کو اوپر سے نیچے کھنگالنے لگتی ہوں تاکہ اک سوچ پیدا ہو سکے،اک راہ مل سکے،کچھ ایسا منظر کھنچے کہ دل میں جوار بھاٹا آٹھ جاے،دماغ میں آندھیاں چل پڑیں اور میرا قلم بیقرار ہو کر الفاظ کے سمندر بہا دے۔

مگر میری ساری کوششیں جیسے بڑھتی جاتی ہیں میرا دم گھٹنے لگتا ہے سانس پھولنے لگتا ہے اور دل آہ بھر کر مایوس اور ماتم زدہ ہونے لگتا ہے۔وڈیوذ میں اسرائیلی فوجی عورتوں اور بچوں کو مارتے پیٹتے ،گلا گھونٹنے،گرفتار کرتے دیکھتی ہوں تو میرے سامنے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ڈنڈے اور گولیاں یاد آنے لگتی ہیں۔آنسو گیس سے بھری ہوا مجھے کئی دھرنوں اور مظاہروں اور ریلیوں کی یاد دلانے لگتے ہیں۔ کسقدر عام ہے یہ سب کچھ ہمارے پاکستان میں پھر اسرائیل کرے تو اچنبھا کیسا۔بچوں کو گرفتار ہوتے اور مرتے دیکھتی ہوں تو ان ہزاروں بچوں کا خیال آتا ہے جو ہماری بے حسی اور بے انصافی کے ہاتھوں ہر سال تھر کے صحرا میں ڈھیروں ڈھیر دم توڑ جاتے ہیں۔اور وہ بچے جنکا اپر پنجاب میں جنسی استحصال ہوا۔جو ہسپتالوں کے برآمدوں میں،سڑکوں پہ اور رکشوں میں جنم لیتے ہیں اور کاروانوں کی زد میں آ کر کچلے جاتے ہیں۔میرا قلم اٹکنے لگتا ہے اور الفاظ ساتھ چھوڑ کر اڑنے لگتے ہیں۔میں کیا لکھوں یہ سب میرے لیے نیا کب ہے۔یہ تو بہت عام سا روزمرہ کا جھگڑا ہے،میڈیا کی روزی روٹی،،زندگی کا پہیہ جو میرے آس پاس اسی طرح سے رواں دواں ہے۔اسکے باوجود کہ میرے وطن پر نہ کوئ اسرائیلی حکومت،نہ ہندو نہ عیسائی۔مسلماں حکومتیں،مسلماں ملک مسلمانوں کی اکثریت،کرنے والے بھی ہم سہنے والے بھی ہم!پھر کس طرح سے ہمت کروں کہ اپنے آپ سے تہہ نظر کروں،اور کسی اور سمت انگلی اٹھاؤں جبکہ چار انگلیاں میری طرف اشارہ کرتے چیخ رہی ہیں۔

میں فلسطین اسرائیل پر ریسرچ کا آغاز کرتی ہوں کسطرح ایک چھوٹی سی قوم کے چند لوگ اتنی بڑی عرب مسلمان دنیا کے بیچ آ کر انکی شہہ رگ دبوچ کر بیٹھ گئے تو جہاں دل سے اک سسکی نکلتی ہے تو انکی سیاست اور بلاغت کو داد دینے کو دل بھی چاہتا ہے ۔کیا یہی ہوتی ہے کردار اور اعمال کی،عزم اور ارادے کی طاقت۔کیا یہی ہوتے ہیں وہ کردار جو ایک ہو کر ہزاروں پر بھاری ہوتے ہیں۔پھربحثیت اک قوم کے خود پر نظر کرتی ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہےکہ ہم لاکھوں کروڑوں ہو کر بھی تنکے سے ہلکے اور دھنکی روی سے بے وزن نکلے۔

جب ساری غیر مسلم طاقتوں کو مسلماں کے خلاف درپردہ اور کھلا متحد دیکھتی ہوں تو انکے اتفاق اور طاقت پر واہ نکلتی ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے ہزاروں حکمرانوں اور اسلامی ریاستوں کے گریباں پکڑنے کو دل کرتا ہے ۔جب میں یہودیوں کی قواعد و قانون،اصول وضوابط،عزم اور ارادے کی پختگی اور کامیابی دیکھتی ہوں جو پوری دنیا کے لوگوں کو خرید لینے کی طاقت رکھتے ہیں تو ہر قیمت پر ہر جگہ بک جانے والے ہو کر نظریں چرانے لگتی ہوں۔ہم بکنے والے خریدنے والوں کے سامنے کیا کھڑے ہوں؟جب میں اسرائیلی فوجی کو مجمعے کی طرف بڑھتا دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ابھی یہ آس پاس کے سب لوگوں کو ادھیڑ دے گا مگر وہ ایسے نہیں کرتا اور مجھے منہ میں گولیاں مارنے والی پولیس اور لال مسجد پر حملہ کرتے ٹینک یاد آنے لگتے ہیں ۔طاقت اور قانون کے نام پر ہر جگہ ہر چیز حلال ہے شاید۔کیا انسانوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک پنجاب سندھ اور دوسرے علاقوں کے جاگیروں میں ہونے والے ظلم سے ذیادہ ہے؟۔پھر میری روشنائی سوکھنے لگتی ہے اور میرا قلم ٹوٹ جاتا ہے۔کون سا ایسا اہل علم ہے جو یہ نہیں جانتا کہ جس ملک کی چھلنی میں سے ہر چھان بورا سو دفعہ چھان کر الگ کیا جاتا ہو وہاں ایک متنازعہ سکینڈلز میں پھنسا شخص صدارت تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟یہ نظر کے دھوکے محض نظر کے اندھوں کے لیے تخلیق کئے جاتے ہیں. اہل بینا دیکھتے ہیں کہ اک پپٹ کو کچھ خاص مقاصد کے لیے آگے کیا جاتا ہے تاکہ کام نکلنے کے ساتھ اسے گالیاں بھی نکالی جا سکیں اور بعد میں الزام بھی دیا جا سکے۔کون نہیں جانتا کہ طاقتور ملک سے لے کر پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک تک نااہل لوگوں کو صدارتیں اور وزارتیں کیوں دی جاتی ہیں اور ان سے دراصل کیا مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔کسے نہیں خبر کہ اس سٹیج ڈرامہ کے پیچھے ہاتھ ملائے کھڑے کتنے بڑے شرفاء کے چہرے ہیں جو آواز احتجاج میں بھی ہمنوا ہیں اور تھپکی دینے میں بھی پہلے۔جب مسلمان طاقتیں آپس میں دست گریباں ہو کر ایک دوسرے کے خون سے شہید ہونے لگیں، اپنی جنگی طاقت کے مظاہرے اور اپنی عظمت کے ترانوں کی خاطر اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں کاٹیں تو پھر گھر ،ریاستیں،قومیں ذیادہ دن کہاں بچ پاتی ہیں۔اسرائیلی،عیسای اور ہندو جب یہ بات سمجھتا ہو اور ہمیشہ قریب ہو کر کھڑا ہوتا ہو اور مسلمان بھول جاے اور ایک دوسرے کا دشمن بن جاے تو مجھے شرم آتی ہے کہ میں اک ایسے گروہ کا حصہ ہوں جو بھای سے کندھا ملانے ،کمر سر کمر لگانے کا عادی نہیں ۔جسکا نصیب جلد یا بدیر بھیڑیے کا شکار ہونا ہے۔شکار وہی بنتا ہے جو ذہنی اور نفسیاتی طور پر سب سے ناکارہ اور کمزور ہو،جسکا کردار سوکھی مٹی ہو،۔میں شرمندہ ہوں کہ میں بھی اسی بیکار مٹی کا حصہ ہوں۔مجھے کہہ لینے دیں کہ پچھلے کچھ دنوں میں سب سے بڑا سچ بولنے والا دلیر آخر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نکلا جس نے اعلان کیا کہ دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ فیصلے ہو چکے جو اب ٹلنے والے نہیں۔اس کے علاؤہ نعرے لگانے والے،اجلاس بلانے والےاحتجاج کرنے والے سب کے سب بناوٹ ہے،بدصورت حقیقت چھپانے اور بھلانے کی اک کوشش ہے۔سب کے سب سر تسلیم خم ہو چکے مگر خون گرماے رکھنے کو،میلہ سجاے رکھنے کو،چہرہ اٹھاے رکھنے کو کچھ دنوں کے مظاہرے،بیانات،کانفرنسوں ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے نظاروں سے فرق کیا پڑتا ہے۔میرے دوست مجھے معاف کر دیں کہ میں کوتاہ نظر ہوں۔میری حد نظر میرے گھر میری ہی گلی تک ہے۔میرے کان میرے آنگن کے پیڑ پر بیٹھے الووں کے سُر سنننے کے عادی ہیں میری سماعتیں میری چھت کی چمگادڑوں سے آگے نہیں جاتییں۔میں کیسے وہ علم اٹھاؤں جو میری بصارت سے ادھر ہے ،میں وہ ہاتھ کیسے اٹھاؤں جسکے اشارے سب میری ہی طرف ہیں۔

install suchtv android app on google app store