موسمیاتی خطرات اور صحافتی ذمہ داریاں

موسمیاتی خطرات اور صحافتی ذمہ داریاں فائل فوٹو

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے زیر اہتمام میڈیا سیمینار میں سینیٹر شیری رحمٰن کی گفتگو نہ صرف متاثرکن تھی بلکہ یہ ایک مکمل رہنمائی تھی اُن تمام شعبوں کے لیے جو موسمیاتی بحران اور آفات کی رپورٹنگ سے جُڑے ہیں۔ ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کے سیاسی، معاشی اور سائنسی پہلوؤں سے آگاہ ہیں بلکہ میڈیا اور عوام کے درمیان پھیلنے والی معلومات کی نوعیت اور اثرات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔

شیری رحمٰن نے اپنی تقریر میں ایک اہم نکتہ اُجاگر کیا: "معلومات کی بروقت، درست اور ہضم ہونے والی ترسیل زندگیوں اور معیشت کو بچا سکتی ہے"۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر علاقہ موسمیاتی تبدیلی سے مختلف انداز میں متاثر ہوتا ہے، وہاں ایسے بیانات ہمیں قومی سطح پر ایک ہم آہنگ حکمت عملی کی طرف لے جاتے ہیں۔

انہوں نے "کہانی سنانے" کے عالمی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے میڈیا کو یاد دلایا کہ حقائق کو انسانی زاویے سے بیان کرنا کتنا ضروری ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے پاکستان میں رپورٹنگ کو "ایپیسوڈک" یعنی صرف تب فعال ہونے والا قرار دیا جب کوئی سانحہ پیش آتا ہے۔ یہی وہ خلا ہے جس پر انہوں نے زور دیا کہ ہمیں مستقل، مربوط اور معلوماتی رپورٹنگ کے لیے کام کرنا ہوگا۔

ایک اور اہم نکتہ اُن کی گفتگو کا وہ طبقہ تھا جو موسمیاتی بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے: "سماجی ڈھانچے کے نچلے درجے پر موجود لوگ"۔ شیری رحمٰن نے واضح کیا کہ پاکستان میں 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور انہی پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ اور سب سے شدید ہوتے ہیں۔

ان کا بلوچستان میں حالیہ جنگلات کی آگ کا ذکر اور اس پر میڈیا و اداروں کی خاموشی کی نشاندہی کرنا اُس بے حسی کی عکاسی کرتا ہے جو ہمارے نظام میں خطرناک حد تک سرایت کر چکی ہے۔ "اربوں روپے کے زرعی نقصانات اور انسانی جانوں کے ضیاع پر بھی اگر میڈیا خاموش رہے، تو ہم کس حقیقت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟"

شیری رحمٰن نے موسمیاتی شدتوں میں اضافہ، درجہ حرارت کی غیر معمولی بلندیاں (جیسے جنوبی پاکستان میں 53 ڈگری سینٹی گریڈ)، اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم جیسے موضوعات پر بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں علاقے بہ علاقے پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک "ماحولیاتی لحاظ سے متنوع ملک" ہے جہاں پہاڑوں سے لے کر صحراؤں اور دریاؤں تک ہر جگہ کے مسائل مختلف ہیں، لیکن ہم ایک ہی پالیسی سے سب کچھ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سینیٹر شیری رحمٰن کی تقریر کو اگر کسی جملے میں سمیٹا جائے تو وہ یہ ہوگی: "ہمارے پاس وقت کم ہے، اور معلومات، پالیسی، اور عمل کا رشتہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنی ہی زیادہ زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔"

ایک صحافی اور ماحولیاتی محقق کی حیثیت سے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ خطاب نہ صرف میڈیا کے لیے ایک انتباہ تھا بلکہ پالیسی سازوں، تعلیمی اداروں، اور نوجوانوں کے لیے بھی ایک رہنمائی تھی کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کا مسئلہ نہیں بلکہ حال کی حقیقت ہے — جسے نظر انداز کرنا ہماری اجتماعی بقا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

install suchtv android app on google app store