اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔۔

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
 اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔۔ فائل فوٹو اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔۔

مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب کا شعر ہے 
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

اول تو یہ مصرعہ ہے ہی حقیقت پر مبنی لیکن ہمارے ملک کے تنگ نظر طبقوں نے اسے درست ثابت کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ۔ کہتے ہیں کہ آنکھیں تب تک بے نور ہوتی ہیں جب تک کہ دل کی آنکھیں کھلی نہ ہوں اور جب تک آپ دماغ کے بند کواڑوں کو کھول نہ سکیں ۔ جب تک دماغ میں کوئی شعور نہ ہو ، کوئی مثبت سوچ نہ ہو ، کوئی اچھا عمل کرنے کی جستجو نہ ہو تو یہ آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں ۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جہالت کا تعلق ناخواندگی سے نہیں ہے بلکہ اچھی تربیت کے فقدان سے ہے ۔ جہالت تو بس وراثتی جہالت ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم آئے دن سڑکوں پر مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ کبھی  کس ایشو پر پر تو کبھی کس مسئلےپر ۔۔ ابھی حالیہ مثال فرانس کے سفیر کی بے دخلی سے متعلق  احتجاج کی لے لیں ۔ پولیس فورس تک اس احتجاج میں بے بس نظر آئی  یہاں تک کہ فوج کی مدد بھی لینا پڑی ۔ فرانس کے بائیکاٹ کی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں ۔

یہی حال اسرائیل فلسطین تنازعہ میں دکھائی دیا  جبکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک اگر اکٹھے ہو جائیں تو آج کشمیر اور فلسطین کو آزادی سے کوئی محروم نہیں کر سکتا ۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے مسلم ممالک  خواب غفلت سے تب بیدار ہوں گے جب  خدانخواستہ آگ ان کے چمن کو بھسم کر دے گی ۔

آج اسلام کےاصولوں اور نظریات کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ مساجد کے منبروں کو دین اسلام کی اصل تشریح نہیں بلکہ بہت حد تک فرقہ واریت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔  ہاں بھئی جمہوریت ہے ، آپ جلسے نکالیں ، جلوسوں کا انعقاد کریں اور دوسری جانب کہیں کہ مذہب اور سیاست جد اجدا ہیں لیکن ہم جب چاہیں گے مذہب کو سیاست اور سیاست کو مذہب کے نام پر استعمال کریں گے ۔ ہم یہاں نقصان بھی مسلمانوں کی املاک کو پہنچائیں گے اور دوسری طرف نظام مصطفے  کے نفاذ اور ریاست مدینہ کی تشکیل کا  مطالبہ بھی کریں گے۔

ایک طرف تمام مسلمان دنیا کی مظلوم اقوام کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں دوسری طرف ان کے ممالک اپنے مفادات پر مبنی کچھ اور بیانات دے دیتے ہیں ۔ مسلم ملت میں جب یہی نفاق اور منافقت جب ہنود و یہود دیکھتے ہیں تو انھیں  اور کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور وہ محکوم اور مظلوم اقوام کو  مزید ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ انھیں علم ہو جاتا ہے کہ بس یہ اقوام جلسے جلوس نکالنے کے سوا کچھ کر نہیں کر سکتیں ۔  

 میرا سوال صرف اتنا ہےکہ  بھائیو چاہے آپ کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہو یا آپ کسی سیاسی جماعت کے پیروکار ہیں سرکار آپ نے اگر تمام مسائل سڑکوں پر ہی حل کرنے ہیں تو پارلیمان کادم چھلہ لگانے کی کیا تک بھلا ؟ تمام پارلیمان کے اراکین رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں اور آپ سب سٹرکوں پر آکر اپنی علیحدہ علیحدہ مسجد بنا کر دھونس اور دھمکی کی سیاست سیاست کھیلیں ۔اس مشورے کی کوئی فیس نہیں ۔

 

install suchtv android app on google app store