کل ایمان، مولا علی کرم اللہ وجہہ

کل ایمان، مولا علی کرم اللہ وجہہ فائل فوٹو

اسلام کی تاریخ میں اگر یہ دو جملے نہ ہوں تو شاید میری ناقص رائے میں دین کی تشریح ہی ممکن نہ ہو پائے ۔ ایک جملہ ( انا للہ و انا الیہ راجعون ) اور دوسرا ( فزت ورب الکعبہ ) یعنی’’ ایک تو ہم بےشک اللہ تعالی کے لئے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ‘‘اور دوسرے جملے کا مطلب ہے کہ ’’خدا کی قسم میں ( علی ) کامیاب ہو گیا ۔‘‘

اور یہ دونوں جملے جس اعلیٰ مرتبت شخصیت کے ہیں ان کا نام مولا علی کرم اللہ وجہہ ہے ۔ دنیائے اسلام کے اس پہلے مجاہد ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولین مددگار اور صحابی کو کرم اللہ وجہہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آج تک کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی بلکہ ہمیشہ سے ہی خدائے واحد کی حقانیت پر قائم رہے۔

اسلام کی بقا اور سربلندی کے لئے خانوادہ ابو طالب علیہ السلام کی قربانیاں کسی سے مخفی نہیں ، بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اگر دنیا میں ام المومینن حضرت بی بی خدیجہ سلام اللہ علہیہ کی دولت اور حضرت ابوطالب علیہ السلام کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے شفقت نہ ہوتی تو آج اسلام کی بقا مشکل تو کیا ناممکن ہو جاتی۔

مولا علی علیہ السلام مولود کعبہ ہیں ، انھیں داماد رسول ، بردار رسول ، صحابی اور وصی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ جب کفارمکہ ہمارے نبی کی جان کے در پہ تھے اور جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو اس وقت آپ مولا علی علیہ السلام کے پاس کفار کی امانتیں رکھوا کر گئے ۔ مولا علی علیہ السلام کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جاتے لیکن آپ شیر خدا اور حیدر کرار ہیں۔

آپ کا خود فرمان ہے کہ اس رات جب کفار کی شمیشروں کا ہر طرف زور تھا آپ کو زندگی میں اس رات سے زیادہ پرسکون نیند کبھی نہیں آئی ۔ جب کفار مکہ اپنی امانتوں کے بہانے نعوذ باللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے آئے تو بستر پر مولا علی علیہ السلام کو پایا تو پوچھا کہ محمد کہاں ہیں ؟ آپ نے بلا خوف و خطر جواب دیا ، ’’ کہ کیا تم ان کو میرے حوالے کر کے گئے تھے جو میں تمھیں اس بات کا جواب دوں ۔ ‘‘ آپ کی اسی دلیری اور شجاعت کو دیکھ کر کفار مکہ دہشت کا شکار ہوئے اور ان کے حوصلے پست ہو گئے۔

غزوہ احد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ علیہ السلام کی شہادت کی خبر جب مولا علی علیہ السلام تک پہنچی تو آپ کی زبان سے انا للہ و انا الیہ راجعون کا کلمہ ادا ہو ااور یہ جملہ خدا تعالی کا بھی پسندیدہ کہلایا۔

پیغمبر اکرم نے مولا علی علیہ السلام کی تربیت خود کی ان کا نکاح بھی اپنی بیٹی کے ساتھ خود پڑھا ۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنے عم زاد ( محمد ) کے ساتھ اس طرح وابستہ رہتا تھا جس طرح ایک اونٹنی کا بچہ ہر وقت اپنی ماں کے ساتھ ساتھ رہتا ہے ‘‘۔ اسی لئے تو حدیث نبوی ہے کہ ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں ۔ ‘‘ یعنی علم بے شک علم کے شہر سے ملے گا لیکن اسکے لئے صحیح راہ اختیار کرنا ہو گی کوئی شارٹ کٹ نہیں لینا ہو گا بلکہ دروازہ سے ہی جانے کی اجازت ملے گی۔

مولا کے فضائل لکھنا کسی کے بس کی بات نہیں ، سب دریائوں کا پانی سیاہی بن جائے اور درختوں کی شاخیں قلم کا روپ دھار لیں تو بھی تاقیامت آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب کا احاطہ نہیں ہو سکتا ۔ خندق کے میدان میں جس مرد جری کی ایک ضرب کئی کفار کے سر کاٹ دے ، جس کی ایک ضربت کا درجہ و مرتبہ کئی ہزار سال کی عبادت پر بھاری ہو ، جس حیدر نے خیبر کے میدان میں مرحب و انتر کو للکارا ہو اور ان کی گردنیں کاٹ ڈالی ہوں ۔ جو حجتہ الوداع کے موقع پر خم غدیر پر من جانب اللہ ، رسول اللہ کا وصی اور خلیفہ ہو ۔ مواخات کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہو ان کی شان کے کیا کہنے۔

مگر افسوس ظالم امت نے دنیا ئے اسلام کی اس خوبصورت ، ذیشان اور عالی مقام ہستی کے ساتھ بغض و عداوت کی انتہا کر دی ۔ ان کا حق خلافت غصب کر لیا ، ان کی شریک حیات بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہہ کے پہلو مبارک کو زخمی کر کے ان کے بیٹے محسن کو شہید کر دیا گیا ۔ ان کی وارثت کا باغ فدک بھی انھیں نہ دیا گیا۔

مولا علی علیہ السلام کو دنیا کے شقی القلب ترین انسان عبدالرحمان ابن ملجم ملعون نے ۱۹ رمضان سن ۳۰ ہجری میں مسجد کوفہ میں حالت نماز میں سر پر زہر میں بجھی ہوئی تلوار کے وار کر کے شہید کر دیا ۔ آپ نے اس وقت بھی خالق کائنات کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم آج علی کامیاب ہو گیا ۔ آج کے دن بڑے سوگوار ہیں ، ۲۱ رمضان کو مولا کی شہادت ہوئی اور صرف امام حسن و حسین علیہ السلام ہی یتیم نہ ہوئے کوئی ذی شعور انسان سوچے تو پوری امت مسلمہ یتیم اور بے سہار اہ ہو گئی۔

 

install suchtv android app on google app store