جون 2026 میں موجودہ آٹو پالیسی کی مدت ختم ہونے والی ہے، جس کے پیش نظر حکومت نے آٹو انڈسٹری پالیسی 31-2026 کو حتمی شکل دینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) گاڑیوں کے اسمبلرز، پارٹس بنانے والے اداروں اور استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں کے ساتھ وسیع مشاورت کر رہا ہے۔
حکام کے مطابق نئی پالیسی نیشنل ٹیرف پالیسی (این ٹی پی) کے مطابق ترتیب دی جا رہی ہے، جو پاکستان کے 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی پروگرام کا حصہ ہے۔
اس کے تحت تیار شدہ مصنوعات پر ٹیرف کی حد 15 فیصد رکھی گئی ہے اور رعایتی ایس آر اوز کے خاتمے کی سفارش کی گئی، تاکہ آٹو سیکٹر کو زیادہ کھلے اور مارکیٹ پر مبنی نظام کی طرف لے جایا جا سکے۔
حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دے دی ہے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے بیگیج اور گفٹ اسکیمز جاری رکھنے کا امکان ہے۔
تاہم مقامی اسمبلرز کا کہنا ہے کہ تاجر ان اسکیموں کو تجارتی درآمدات کے لیے غلط استعمال کر رہے ہیں، جس سے مقامی ماڈلز کے ساتھ سخت مقابلہ پیدا ہوا ہے۔
صنعتی ذرائع کے مطابق، مقامی گاڑی ساز کمپنیوں اور پارٹس بنانے والوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے ہیں، جہاں 11 میں سے 9 اسمبلرز جاپان، چین اور جنوبی کوریا کی 15 عالمی برانڈز کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں کمی کی تجویز دی ہے تاکہ استعمال شدہ گاڑیوں کے ساتھ منصفانہ مسابقت ممکن ہو، قیمتیں کم ہوں اور مارکیٹ میں وسعت آئے۔
نئی پالیسی آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ ٹیرف اصلاحات کے مطابق بنائی جا رہی ہے۔ کمپنیوں نے تجویز دی کہ مکمل ناک ڈاؤن کٹس اور مقامی پارٹس پر ڈیوٹی 10 فیصد یا اس سے کم ہو، جبکہ حفاظتی پرزوں پر عائد ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ گاڑی کی قیمت کا نصف سے زیادہ حصہ سرکاری ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں پر مشتمل ہے، جس سے عام صارف کے لیے گاڑی خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔
اس کے برعکس، دو بڑی جاپانی اسمبلرز اور کئی پارٹس مینوفیکچررز اعلیٰ ٹیرف تحفظ کے حامی ہیں اور مقامی پارٹس پر 35 فیصد تک ٹیرف برقرار رکھنے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔
پالیسی سازوں کا مؤقف ہے کہ یہ تحفظاتی رویہ برآمدات کو محدود کر رہا ہے، مصنوعات میں تنوع کم کر رہا ہے اور پرانے ماڈلز کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
پالیسی پر کام کرنے والے حکام کے مطابق حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ طویل مدتی تحفظ اب ممکن نہیں، متعلقہ وزارتوں نے پرانے اسمبلرز اور وینڈرز سے یہ وضاحت مانگی ہے کہ دہائیوں پر محیط لوکلائزیشن سے صارفین کو کیا فائدہ پہنچا، اگرچہ کمپنیاں بلند مقامی مواد (لول کونٹینٹ) کا دعویٰ کرتی ہیں۔
مگر ان کے ماڈلز اب بھی عالمی سطح پر غیر مسابقتی ہیں اور عالمی سیفٹی و اخراج (امیشن) معیار پر پورا نہیں اترتے۔
لوکلائزیشن اور برآمدی خلا
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے مطابق انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) نے بتایا کہ کرولا، کراس اور یارس ماڈلز میں لوکلائزیشن کی شرح 60 فیصد سے زائد ہے، جب کہ ہلکس اور ریوو میں یہ شرح کم (40 سے 50 فیصد) ہے۔
ہونڈا اٹلس کارز لمیٹڈ (ایچ اے سی ایل) کے مطابق، سِوک میں 60 فیصد، سِٹی میں 73 فیصد اور بی آر وی/ ایچ آر وی میں 50 فیصد سے کم لوکلائزیشن ہے۔
پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ (پی ایس ایم سی ایل) جو 2024 میں اسٹاک ایکسچینج سے ڈی لِسٹ ہو چکی ہے، اس نے سوِئفٹ میں 35 فیصد، کلٹس میں 51 فیصد اور آلٹو 660cc میں 62 فیصد مقامی مواد کی رپورٹ دی تھی۔
منقطع شدہ ماڈلز ویگن آر، بولان اور راوی میں لوکلائزیشن کی شرح بالترتیب 61، 72 اور 69 فیصد تھی۔
تاہم اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں ان میں سے کسی بھی ماڈل نے نمایاں برآمدات نہیں کیں، جس سے لوکلائزیشن کے ترقیاتی حکمتِ عملی کے طور پر مؤثر ہونے پر سوال اٹھتا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق جاپان نے پاکستان کی اُس تجویز کے خلاف ڈبلیو ٹی او میں شکایت درج کرائی ہے۔
جس کے تحت ٹیرف فوائد کو برآمدی کارکردگی سے منسلک کیا گیا ہے، مقامی پالیسی سازوں کے مطابق، یہ شرط طویل المدتی مراعات کے لیے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔
نئے اسمبلرز اور پالیسی کا رخ
مارکیٹ میں آنے والے نئے اسمبلرز نے ہائبرڈ اور پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیاں متعارف کرائی ہیں، جن میں بہتر حفاظتی فیچرز اور بین الاقوامی معیار کے ڈیزائن شامل ہیں۔
انہوں نے مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں کی چھوٹی سطح پر برآمدات بھی شروع کی ہیں، ان کی کامیابی نے ٹیرف میں اصلاحات اور برابر مسابقتی ماحول کے حق میں دلائل کو مضبوط کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ پالیسی نے پہلے ہی طویل المدتی اجارہ داریوں کو توڑ دیا ہے اور صارفین کے لیے انتخاب کے مواقع بڑھائے ہیں۔
ان کے مطابق، آئندہ مرحلہ پرانے کھلاڑیوں کے لیے تحفظ برقرار رکھنے کے بجائے مسابقت میں بہتری پر مرکوز ہونا چاہیے۔