کیا تاجروں کا ٹیکس کی شق 203 کو ختم کیا جائے گا ؟

ایف پی سی سی آئی فا ئل فوٹو ایف پی سی سی آئی

ناصر خان قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا ہے کہ حکومت نے ایف پی سی سی آئی ‏کے عملی، کاروبار دوست اور معا شی ترقی کو فروغ دینے والی تجاویز کو بجٹ میں شامل نہیں ‏کیا ہے جیسے وفاقی بجٹ 22-2021 سے کافی پہلے بھیج دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تجارتی برادری کی نمائندہ تنظیم کو نظرانداز کرنا ‏حکومت کی جانب سے سراسر غفلت ہے۔ ناصر خان نے بجٹ کی شق ‏A 203‎‏ پر بھی تنقید کی جو ‏ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات کو مزید تقویت دے رہی ہے۔


انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ بدعنوانی اور ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ سے نکلے گا ‏اگرچہ سلیب متعارف کرانے کے ذریعے سیکشنA 203‎‏ میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ابھی بھی ایف ‏پی سی سی آئی کا موقف ہے کہ گرفتاری اور قانونی چارہ جوئی کے اختیارات ایس ایم ایز کے لئے ‏خوفناک اور حوصلہ شکنی کا ماحول پیدا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ شق 203‏A‏ نیب کے قانون کے مترادف ہے اور ایف بی آر کو جوابدہ بنانے کے لئے ‏دفعات کو شامل کیا جانا چاہئے اگر ایف بی آر کسی قسم کی بدعنوانی یا ٹیکس چوری ثابت نہیں ‏کر سکے۔ یہ شق 203‏A‏ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے اور معزز سپریم کورٹ کو ‏ملک کے تاجروں کے تحفظ کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔

ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر نے یہ بھی نشاندہی کی کہFED‏ کی مد میں فاٹا اور پاٹا ‏کومکمل چھوٹ دے دی گئی ہے اور فاٹا، پاٹا کی کل آبادی کی جا ئز ضروریات اورٹوٹل ڈیمانڈ کے ‏سروے کے بغیرمکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس سے فاٹا اور پاٹا میں ‏FED‏ سے مستثنیٰ صنعتی ‏اکائیوں کے مقابلہ میں ملحقہ علاقوں اور پورے ملک میں خاص صنعتوں کو غیر منافع بخش بنائے ‏جانے کا خطر ہ مو جود ہے۔

install suchtv android app on google app store