پاکستانی ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہے: مائیک پومپیو

پاکستانی ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار فائل فوٹو پاکستانی ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار

امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کو درپیش دنیا کے پانچ بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ یہ اعتراف امریکہ کے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کو ایک انٹرویو میں امریکی سلامتی کو درپیش پانچ بڑے مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں لگ جانے کا خدشہ ان میں سے ایک ہے۔

پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا انتظام ہر لحاظ سے عالمی معیار کا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ بین الاقوامی ادارے اس پراپنی رپورٹ بھی دے چکے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق امریکہ کے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف جو ایکشن لیے ہیں وہ ہم سے پہلے کسی حکومت نے نہیں لیے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو وہ بہت سنجیدہ لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے خود اپنے دوستوں کو اس لڑائی میں کھویا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی شخص یا ملک سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں جس کا اعتراف خود امریکی حکام سمیت عالمی رہنما کرتے آئے ہیں۔افواج پاکستان اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 60 ہزار کے قریب افراد کی جانوں کا نذرانہ اہل پاکستان نے دیا ہے اور ساتھ ہی اربوں روپے کا خسارہ بھی اٹھا یا ہے۔

مائک پومپیو کا کہنا تھا کہ ہم نے گیارہ ستمبر کے حملوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم نے پاکستان پر اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنے کےلئے زور ڈالا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ جنوری میں امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے اپنے دورہ پاکستان میں تسلیم کیا تھا کہ پاک فوج نے اٹھارہ ماہ میں جو کام کیا ہے وہ امریکہ کی اٹھارہ سال سے خواہش تھی۔

انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ امریکہ کی یہ غلطی ہے کہ پاکستان کےلئے پالیسی بار بار تبدیل کرتا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ’لو اور دو‘ کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔

امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہاں ہونے والی ملاقاتوں سے آگاہ کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ ملٹری آپریشن گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ عبوری سے اسٹریٹجک تعلقات کی طرف جانا ہو گا۔

پاکستانی اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سرحد کے اطراف فینسنگ ایک اچھا اقدام ہے اور سرحد مخفوظ کرنے کی پاکستان کے پاس حکمت عملی بھی ہے لیکن کاش! ایسا افغانستان میں بھی ہوتا۔

امریکی سینٹر لنڈسے گراہم نے کہا تھا کہ میں نے مثبت سمت میں چیزوں کو دیکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جسے مزید بہتر بنانا ہے اورحالات میں استحکام ہمارے بھی مفاد میں ہے۔

ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں امریکی سینیٹرکا کہنا تھا کہ ہم برطانیہ کو یہ نہیں کہتے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور جوابی طور پر آپ ہمیں کچھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی پارٹنر شپ ہم پاکستان کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں جس میں لین دین نہ ہو۔

وی او اے کے مطابق جب امریکہ کے سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان میں ایک حتمی حل کےلئے کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ایک سوال پر مائیک پومپیو نے کہا کہ زلمے خلیل زاد ابھی اسی سلسلے میں چھ سے آٹھ دن دوحہ میں مذاکرات کےلئے گئے تھے اور کل ہی لوٹے ہیں۔

ان کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ نے واضح کیا کہ اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ دونوں فریق ایک دوسرے سے بات کریں۔افغان طالبان ابتدا سے ہی افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پہ تیارنہیں ہیں اوروہ اس سے تسلسل کے ساتھ انکار کرتے آئے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے متعلق انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس طویل جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی ایسا حل نکلے جس سے امریکہ کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا خدشہ نہ رہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق حالیہ دنوں میں افغان فورسز پر کیے جانے والے حملوں میں طالبان نے 50 افغان فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا جبکہ اس سے ایک ہفتہ پہلے بھی 70 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان حملوں سے افغان اور اتحادی فوجیں کمزوری کی پوزیشن پر آگئی ہیں۔مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ امن مذاکرات کی ٹیبل پر کون بیٹھا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کو مزید محفوظ بنائیں۔

install suchtv android app on google app store