اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا اور جاپان کی جانب سے پیش کی گئی خلا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف قرار داد کو روس نے ویٹو کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روس نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا اور جاپان کی گھناؤ نی سازش ہے جس سے کونسل کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
15 رکنی سلامتی کونسل میں قرارداد کے حق میں 13 اور روس نے مخالفت جبکہ چین نے حصہ نہیں لیا۔
قرارداد میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ خلا میں جوہری ہتھیاروں یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دوسرے ہتھیاروں کو تعینات نہ کریں، جیسا کہ 1967 کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی جس میں امریکا اور روس شامل تھے۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے ووٹنگ کے بعد کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو کا خلا میں جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ان کی بات کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ کا خیال ہے کہ روس نیوکلیئر ڈیوائس لے جانے والا ایک نیا سیٹلائٹ تیار کر رہا ہے، اگر پیوٹن کا خلا میں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا کوئی ارادہ نہ ہوتا تو روس اس قرارداد کو ویٹو نہ کرتا۔‘
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے قرار داد کو ’مضحکہ خیز اور سیاست پر مبنی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ خلا میں ہر قسم کے ہتھیاروں پر مکمل پابندی سے متعلق ضوابط قرارداد میں واضح نہیں ہیں۔’
بعدازاں روس اور چین نے امریکا اور جاپان کی جانب سے پیش کیے گئے مسودے میں ایک ترمیم کی تجویز پیش کی جس میں تمام ممالک، خاص طور پر خلائی صلاحیتوں کے حامل ممالک پر زور دیا جائے گا کہ ’خلا میں ہتھیاروں کے استعمال کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے روکا جائے۔ ’
اس ترمیم کے حق میں 7 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں بھی 7 ووٹ آئے اور ایک ملک نے حصہ نہیں لیا، ترمیم منظور کرنے کے لیے کم از کم 9 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
امریکا نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور ووٹنگ کے بعد روسی سفیر نے امریکی سفیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم خلا میں ہر قسم کے ہتھیاروں پر پابندی چاہتے ہیں، لیکن امریکا یہ نہیں چاہتا، ایسا کیوں ہے؟ امریکا کو جواب دینا ہوگا‘۔
روسی سفیر نے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ 2008 سے خلا میں ہتھیار رکھنے کے خلاف معاہدے کی تجویز میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔