غزہ پر چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری کا سلسلہ عید کے مبارک موقع پر بھی تھم نہ سکا اور اسرائیلی فوج نے عیدالفطر کے موقع پر بھی بمباری جاری رکھی جس سے 122 فلسطینی شہید ہو گئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ میں چھ ماہ کی بمباری میں ملبے اور راکھ کا ڈھیر بننے والے غزہ میں فلسطینیوں نے جمع ہو کر نماز عید ادا کی اور اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ دکھ درد کو بانٹا۔
مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ میں نماز عید میں ہزاروں فلسطینیوں نے شرکت کی اور ان نمازیوں میں سے ایک اور نرسنگ کے شعبے سے وابستہ روان ابد نے کہا کہ یہ اب تک کی سب سے مایوس کن عید ہے، آپ لوگوں کے چہرے پر مایوسی دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عموماً مسجد اقصیٰ عید کی خوشی منانے آتے ہیں لیکن آج ہم بس ایک دوسرے کو دلاسہ دینے اور سپورٹ کرنے کے لیے آئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہماری مہم جوئی میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور ہم حماس کی تباہی اور یرغمالیوں کی وطن واپسی تک کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
جنگی جنون میں مبتلا نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر 10 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں سے بھرے رفح میں کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اسرائیلی فوجی دستوں کو رفح میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی۔
نیتن یاہو کا یہ بیانیہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کو بڑی غلطی قرار دے چکے ہیں۔
منگل کی رات ہسپانوی ٹی وی پر نشر ہونے والے انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ میرے خیال میں وہ بڑی غلطی کررہے ہیں، میں اس سوچ اور حکمت عملی سے اتفاق نہیں کرتا۔
انہوں نے نیتن یاہو سے چھ سے آٹھ ہفتوں کے لیے مکمل سیز فائر اور ادویہ و خوراک سمیت امداد کی فراہمی کے لیے راہیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ قحط کی صورتحال سے درپیش خطے کو فوری انسانی بنیادوں پر مدد پہنچائی جا سکے۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور تنظیموں نے اسرائیل پر بھوک اور قحط سالی کو جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج کے محاصرے کی وجہ سے غزہ میں امداد اور ادویہ پہنچنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہاں لوگ بھوک کی شدت سے نڈھال ہو کر دم توڑ رہے ہیں جبکہ نومولود بچوں کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو کی دھمکیوں اور بائیڈن کے مطالبات کے ساتھ دوسری جانب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں جس میں جنگ کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت بھی گفتگو کا محور ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ ہم جنگ بندی کے نئے مسودے کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں اس تجویز کے مطابق چھ سے 8 ہفتوں تک جنگ بندی رہے گی اور 40 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے سینکڑوں فلسطینی باشندے رہا کیے جائیں گے۔
حماس نے جنگ بندی کے لیے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا اور مستقل سیز فائر کا مطالبہ کیا ہے لیکن اسرائیل نے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس نے زمین، فضا اور سمندر سے اسرائیل میں کارروائی کی تھی جس کے نتیجے میں کم از کم 1160 اسرائیلی باشندے مارے گئے تھے۔
اس کے جواب میں اسی دن سے اسرائیل نے فلسطین میں بمباری اور جارحیت کا سلسلہ شروع کیا تھا جو 6 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک جاری ہے اور جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 33 ہزار 360 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔