چاند پر نیوکلیئر ری ایکٹر کب تک تعمیرہوگا؟ ناسا نے بتا دیا

امریکی خلائی ایجنسی ناسا 2030 تک چاند پر ایک نیوکلیئر ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کو تیز رفتاری سے آگے بڑھائے گی فائل فوٹو امریکی خلائی ایجنسی ناسا 2030 تک چاند پر ایک نیوکلیئر ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کو تیز رفتاری سے آگے بڑھائے گی

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی خلائی ایجنسی ناسا 2030 تک چاند پر ایک نیوکلیئر ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کو تیز رفتاری سے آگے بڑھائے گی۔ کئی سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ چاند کی سطح پر مستقل توانائی کی فراہمی کا سب سے بہتر، بلکہ شاید واحد طریقہ ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام چاند کی سطح پر انسانی رہائش کے لیے مستقل بنیاد پر ایک اڈہ قائم کرنے کے امریکی عزائم کا حصہ ہے۔

پولیٹیکو کے مطابق ناسا کے قائم مقام سربراہ نے چین اور روس کے ایسے ہی منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک ممکنہ طور پر چاند پر ایک پابندی زدہ زون کا اعلان کر سکتے ہیں۔

تاہم حالیہ اور شدید بجٹ کٹوتیوں کے پیش نظر اس ہدف اور وقت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بعض سائنس دانوں کو تشویش ہے کہ یہ منصوبے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے تحت بنائے جا رہے ہیں۔

امریکا، چین، روس، بھارت اور جاپان سمیت کئی ممالک چاند کی سطح کو دریافت کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں، جن میں سے بعض مستقل انسانی بستیاں بسانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے مقرر کردہ ناسا کے عارضی سربراہ اور امریکی ٹرانسپورٹ سیکریٹری شان ڈفی نے ناسا کو ایک خط میں لکھا کہ ’چاند کی مستقبل کی معیشت، مریخ پر توانائی کی پیداوار اور خلا میں قومی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے اس اہم ٹیکنالوجی کو بروقت آگے بڑھانا ضروری ہے‘۔

شان ڈفی نے نجی کمپنیوں سے ایسے ری ایکٹر کی تجاویز طلب کی ہیں جو کم از کم 100 کلو واٹ بجلی پیدا کر سکے، یہ توانائی کی مقدار نسبتاً کم ہے، کیونکہ زمین پر ایک عام ونڈ ٹربائن 2 سے 3 میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہے۔

چاند پر نیوکلیئر ری ایکٹر کے ذریعے توانائی پیدا کرنے کا خیال نیا نہیں ہے، 2022 میں ناسا نے 3 کمپنیوں کو 50 لاکھ ڈالر کے معاہدے دیے تھے تاکہ وہ ایک ری ایکٹر کا ڈیزائن تیار کریں، اور رواں سال مئی میں چین اور روس نے اعلان کیا کہ وہ 2035 تک چاند پر ایک خودکار نیوکلیئر پاور اسٹیشن تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کئی سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ چاند کی سطح پر مستقل توانائی کی فراہمی کا سب سے بہتر، بلکہ شاید واحد طریقہ ہے۔

چاند پر ایک دن زمین کے چار ہفتوں کے برابر ہوتا ہے، جس میں 2 ہفتے مسلسل سورج کی روشنی اور 2 ہفتے مکمل تاریکی کے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شمسی توانائی پر انحصار انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف سرے میں خلائی ایپلیکیشنز، ایکسپلوریشن اور انسٹرومینٹیشن کے سینئر لیکچرر ڈاکٹر سنگوو لِم کہتے ہیں کہ ’چاند پر ایک چھوٹے عملے کی رہائش کے لیے بھی اگر کوئی بنیادی رہائشی مرکز بنایا جائے تو اسے میگاواٹ سطح کی توانائی درکار ہو گی، صرف شمسی پینلز اور بیٹریاں اس ضرورت کو قابلِ اعتماد طریقے سے پورا نہیں کر سکتیں‘۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’نیوکلیئر توانائی نہ صرف مطلوب ہے بلکہ ناگزیر ہے‘۔

لینکاسٹر یونیورسٹی میں ارتھ اینڈ پلینیٹری سائنسز کے پروفیسر لاینل ولسن کا کہنا ہے کہ اگر مطلوبہ سرمایہ فراہم کیا جائے تو 2030 تک چاند پر ری ایکٹر رکھنا تکنیکی طور پر ممکن ہے، وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹے ری ایکٹرز کے ڈیزائن پہلے سے موجود ہیں۔

اُنہوں نے ناسا کے آرٹیمس خلائی پروگرام (جس کا مقصد انسانوں اور آلات کو چاند پر بھیجنا ہے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف اتنی بات ہے کہ ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے تحت چاند پر ضروری انفرااسٹرکچر قائم کرنے کے لیے کافی تعداد میں مشن بھیجے جائیں‘۔

install suchtv android app on google app store