امریکا میں ایپ پر مجوزہ پابندی کے خلاف ٹک ٹاک کی قانونی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔
ڈسٹرکٹ کولمبیا میں یو ایس کورٹ آف اپیلز کے 3 ججوں پر مشتمل پینل نے اس امریکی قانون کے خلاف دائر درخواست پر سماعت شروع کی جس کے تحت ٹک ٹاک کو 19 جنوری تک امریکا میں کمپنی کو فروخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس مدت میں کمپنی کو فروخت نہ کرنے پر امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
ٹک ٹاک اور بائیٹ ڈانس کی جانب سے مئی 2024 میں اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور 16 ستمبر کو اس کی پہلی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران کمپنی کے وکیل نے عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ امریکی قانون آزادی رائے کے حقوق کے خلاف ہے۔
Andrew Pincus نامی وکیل کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت یہ ثابت نہیں کرسکی کہ ٹک ٹاک قومی سلامتی کے لیے واقعی خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون متعدد حوالوں سے امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کے سامنے موجود قانون کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے اثرات بہت زیادہ ہوں گے، تاریخ میں پہلی بار کانگریس نے 17 کروڑ امریکی شہریوں کی آزادی رائے کو ہدف بنایا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ انصاف کے وکیل Daniel Tenny نے اپنے دلائل میں حکومتی مؤقف کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک کا الگورتھم کا کوڈ 2 ارب لائنوں پر مشتمل ہے جو پورے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم سے 40 گنا بڑا ہے اور اسے روزانہ ایک ہزار بار بدلا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون امریکی قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
سماعت کے دوران ججوں نے ٹک ٹاک کے وکیل سے سخت سوالات کیے۔ انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک کے دلائل سے عندیہ ملتا ہے کہ کمپنی عدالت سے چاہتی ہے کہ وہ کانگریس کے ساتھ قانون ساز ادارے کی بجائے ایک انتظامی ادارے جیسا سلوک کرے۔
ایک جج نے وکیل سے پوچھا کہ آخر یہ قانون دیگر ایسے قوانین سے مختلف کیسے ہے جن کے تحت براڈ کاسٹ لائسنس کی مالک غیر ملکی کمپنیوں پر مختلف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
ٹک ٹاک اور محکمہ انصاف کی جانب سے مقدمے کا فیصلہ 6 دسمبر تک سنانے کی درخواست کی گئی ہے تاکہ امریکی سپریم کورٹ پابندی کے اطلاق تک نظرثانی اپیل پر فیصلہ سناسکے۔
خیال رہے کہ پہلے ایوان نمائندگان کانگریس نے 20 اپریل اور پھر سینیٹ نے 24 اپریل کو ٹک ٹاک پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی۔
جس کے بعد 24 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بل پر دستخط کیے جس کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس قانون کے خلاف بائیٹ ڈانس نے مئی میں امریکی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست دائر کرتے ہوئے کمپنی نے بتایا کہ ٹک ٹاک کو اس طرح فروخت کرنا قانونی یا کسی بھی طریقے سے ممکن نہیں۔ کمپنی نے الزام عائد کیا کہ امریکی حکومت نے 2022 کے بعد سے کوئی سنجیدہ بات چیت نہیں کی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ایوان نمائندگان کی جانب سے کبھی اس طرح کسی ایک قانون کے ذریعے اظہار رائے پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔ درخواست میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت نے اگست 2022 میں چینی کمپنی سے مذاکرات اچانک ختم کر دی۔
کمپنی نے 100 سے زائد صفحات پر مبنی ایک سکیورٹی معاہدے کا مسودہ بھی پبلک کیا ہے جس کا مقصد امریکی صارفین کے ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔ ٹک ٹاک پہلے بھی امریکا میں ریاستی سطح پر ٹک ٹاک کے خلاف پابندی کے خلاف عدالتوں میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
2023 میں ایک فیڈرل عدالت نے ریاست مونٹانا میں ٹک ٹاک پر پابندی کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صارفین کے اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔