امریکا چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی روکنے میں ناکام

امریکہ چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی روکنےمیں ناکام فائل فوٹو امریکہ چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی روکنےمیں ناکام

چین کی چپس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے اور اس کی سائنسی و تکنیکی ترقی کو روکنے کی امریکی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔

غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے وزیر تجارت وانگ ون تھاؤ نے اپنے امریکی ہم منصب ریمنڈو سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔ وانگ ون تھاؤ نے اپنی گفتگو میں چین کو لیتھو گرافی مشینوں کی تھرڈ پارٹی برآمدات پر امریکہ کی پابندیوں، پروسیسنگ چپس کی سپلائی چین کی تحقیقات اور چینی کمپنیوں پر پابندیوں کا تفصیلی ذکر کیا۔

اس بات چیت میں طے پانے والے مخصوص اتفاق رائے کی اطلاع نہ ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے چین کے سنجیدہ خدشات کا مثبت جواب نہیں دیا۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی امریکہ اپنے غلط طریقوں پر قائم رہے گا جو مارکیٹ کے قوانین اور اس کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، لیکن چین کی چپس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے اور یہاں تک کہ چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکنے کی امریکی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔

گزشتہ سال سان فرانسسکو میں ہونے والی سربراہ ملاقات میں چینی اور امریکی صدور نے چین اور امریکہ کے تعلقات کے رہنما اصولوں کا اعادہ کیا جنہیں بالی اجلاس کے بعد سے دونوں فریقوں کی ٹیموں نے مشاورت سے طے کیا تھا۔ بشمول یہ کہ امریکہ چین سے "ڈی کپلنگ” ، چین کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے، چین کو گھیرنے یا اتحاد کو مضبوط بنا کر چین کی مخالفت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔لیکن جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکنے میں مزید آگے بڑھ رہا ہے۔ نہ صرف چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔

چین کو خود امریکہ کی کمپنیوں کی چپس کی برآمدات کو محدود کیا گیا، پختہ پروسیس چپ سپلائی چین کی تحقیقات شروع کی گئی، بلکہ دوسرے ممالک کو چین کو لیتھوگرافی مشینیں برآمد کرنے سے بھی روکا گیا، جو یکطرفہ غنڈہ گردی کا عمل ہے۔

تو کیا چین پر امریکہ کا چپ کنٹرول کامیاب ہو جائے گا؟ اس کاواضح جواب ہے نہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور مارکیٹ کے قوانین کے خلاف چلنے والے طریقوں میں کامیابی کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔ چپس نہ صرف ہائی ٹیک مصنوعات ہیں بلکہ صنعتی چین اور سپلائی چین کا حصہ بھی ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی چپ ایپلی کیشن اور کنزیومر مارکیٹ ‘چین’ کو تنہا کیا جائے تو امریکی چپ کمپنیوں کو بھاری معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے متعلقہ ٹیکنالوجی سرمایہ کاری اور تحقیق کا پیمانہ کمزور ہو جائے گا اور بالآخر امریکی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طویل مدتی ترقی کو بھی نقصان پہنچے گا۔

گزشتہ سال اکتوبر میں امریکہ کی تین بڑی چپ کمپنیوں انٹیل، کوالکوم اور این ویڈیا کے سی ای اوز نے واشنگٹن جا کر بائیڈن انتظامیہ کو چین کو چپ برآمد کرنے پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے گریز کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ چین کے خلاف امریکہ کی پابندیوں کی پالیسی نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس نے چین میں امریکی کمپنیوں کے کاروبار کی ترقی کو بھی محدود کردیا ہے۔

امریکی وزارت تجارت کے برآمدی ضوابط کے مطابق این ویڈیا نے چین کے لئے اپنی چپ ایچ 100 پر مبنی خصوصی ایڈیشن تیار کیا ہے اور متعلقہ چپس کے نمونے چینی صارفین کو جانچ کے لئے فراہم کیے ہیں تاہم متعلقہ نمونوں کے ٹیسٹ کے نتائج چین کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔

علی بابا گروپ، ٹینسینٹ سمیت چین کی دیگر بڑی بڑی کمپنیوں نے کہا ہے کہ 2024 میں این ویڈیاکو دیئے جانے والے آرڈر کی تعداد ان ممنوعہ این ویڈیا ہائی پرفارمنس چپس کے مقابلے میں بہت کم ہوگی، یہ مارکیٹ کا قانون ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ چین کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیت اور چینی عوام کا جدو جہد کا جذبہ چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مسلسل ترقی کی بنیادی وجوہات ہیں، جو مسلسل خود سے آگے نکل رہی ہیں اور اکثر مغربی توقعات کو توڑتی ہیں۔

گزشتہ سال امریکی وزیر تجارت کے دورہ چین کے دوران ہواوے نے اپنی ہائی اینڈ چپس سے لیس ایک نیا موبائل فون جاری کیا جس نے دنیا کو حیران کردیا۔ ناقابل تسخیر محاصرے اور روک تھام کے باوجود ہواوے کی صرف تین سالوں میں اس کامیابی کے حصول نے ایک بار پھر چینی ٹیکنالوجی انٹرپرائزز کی صلاحیت اور پوشیدہ طاقت کو ثابت کیاہے۔

تاریخ میں اعلیٰ پیداوار والے ہائبرڈ چاول، شیلڈ مشینیں، تیز رفتار ریلوے، سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم ، خلائی اسٹیشن اور دیگر ترقیاتی کامیابیاں چین کی ہر ایک سائنسی پیش رفت کے راستے میں مغرب کے محاصرے، جبر اور تضحیک کے باوجود حاصل ہوئی ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 تک ، چین کے پاس 80ہزار سے زیادہ بین الاقوامی انٹلیکچوئل پراپرٹی ایپلی کیشنز موجود تھیں، جو دنیا میں سرفہرست ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین نے چھ کروڑ سے زائد انجینئرز کو تربیت دی ہے اور آج دنیا میں انجینئرز کی سب سے بڑی تعداد چین میں ہے۔

چپس سمیت سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کی برتری ہمیشہ قائم نہیں رہے گی، چین پر امریکی چپ کنٹرول سائنس اور ٹیکنالوجی میں چین خود کو بہتر بنانے کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا۔ چین کی ہائی اینڈ چپس کی کامیابی میں وقت لگے گا لیکن یہ بہت دور کی بات نہیں ہوگی۔

install suchtv android app on google app store