زینب کے مجرم کو آج انسداد دہشت گردی عدالت پیش کیا جائے گا

عمران فائل فوٹو عمران

قصور میں زینب سمیت 8 بچیوں کے قتل کے ملزم عمران کو آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں جج شیخ سجاد کیس کی سماعت کریں گے۔

ذرائع کے مطابق پولیس ملزم سے تفتیش سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی جس کے بعد باقاعدہ سماعت شروع ہوجائے گی۔ دوسری جانب چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے زینب قتل کیس کاروزانہ ٹرائل کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس منصورعلی شاہ نے متعلقہ عدالت کو ہدایات جاری کر دیں۔

خیال رہے پولیس نے زینب کے سفاک قاتل کو 14 روز بعد گرفتار کر لیا، ملزم عمران علی کی ڈی این اے سے تصدیق کی گئی، سیریل کلر نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا مجھ پر جنات کا سایہ ہے، ایسا شرمناک اور گھناؤنا جرم کرتے وقت میری عقل کام نہیں کرتی تھی، بچیوں کا قتل اپنی مرضی سے نہیں کرتا تھا یہ کام مجھ سے جن کراتے تھے۔

ملزم کی نشاندہی پر اس کے 4 ساتھیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس نے 24 سالہ ملزم عمران علی کو 9 جنوری کو دیگر مشکوک افراد کے ساتھ حراست میں لیا تھا جہاں اسے مرگی کا دورہ پڑا اور اسے چھوڑ دیا گیا۔

ملزم کا 14 جنوری کوپہلا، 20 جنوری کو دوسرا ڈی این اے ٹیسٹ ہوا، جس کے بعد ملزم موقع پا کر دوسرے شہر چلا گیا۔ گزشتہ روز ڈی این اے کی رپورٹ پولیس کو ملی جس میں ثابت ہو گیا کہ عمران ہی زینت سمیت 8 بچیوں کے قتل میں ملوث ہے۔

ملزم کی گرفتاری کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، شہری ملزم کے گھر کے باہر جمع ہو گئے اور گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی اور گھر کو بند کر دیا گیا۔ پولیس نے ملزم کے 2 بھائی، 5 بہنوں کو بھی حراست میں لے لیا، جن سے تفتیش جاری ہے، جہاں زینب کی لاش پائی گئی وہ جگہ ملزم کے گھر کے بالکل قریب ہے۔

ذرائع کے مطابق خفیہ ادارے نے پولیس کو رپورٹ دی تھی کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نشر ہونے کے بعد ملزم نے داڑھی منڈوا کر حلیہ بدل لیا ہے جس پر پولیس نے اس کی نگرانی سخت کر دی، ملزم اہلخانہ سے الگ تھلگ اور گھر سے کئی کئی ہفتے غائب رہتا تھا، پولی گرافک ٹیسٹ میں بھی اس کا جھوٹ پکڑا گیا، ملزم غیر شادی شدہ اور نعت خوانی کے ساتھ ساتھ مزدوری کرتا تھا، دو ماہ قبل اس کا والد فوت ہو گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق 6 ملزموں کی فرانزک رپورٹ مکمل ہو گئی، 4 ملزموں نے ملزم عمران کو واردات کے بعد چھپنے میں مدد دی تھی، ایک وعدہ معاف گواہ بن گیا جبکہ ملزم عمران کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔

زینب اور ملزم کے اہلخانہ کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا، ملزم بچی کو اکثر باہر لے جایا کرتا تھا، زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاکپتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا تھا۔

ملزم نے پہلی واردات جون 2015 میں کی تھی، زیادتی کے بعد قتل کی جانیوالی بچیوں کی عمر 4 سے 9 سال تھی۔ متاثرہ بچیوں میں تہمینہ، عائشہ، عاصمہ، لائبہ، زینب، کائنات، ایمان فاطمہ اور نور فاطمہ شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزم زینب کے جنازے میں بھی شامل تھا۔

ننھی زینب کے والد حاجی امین انصاری نے کہا ہے زینب بیٹی کا دکھ بہت بڑا ہے، اللہ تعالیٰ ہی صبر دے سکتا ہے۔ میری بیٹی کا درد پوری قوم نے محسوس کیا، پورا پاکستان اس کے لئے تڑپا ہے۔ ہم اس وقت مدینہ شریف میں تھے، جب زینب کے گم ہونے کی اطلاع ملی، وہاں سے ہم مکہ شریف آگئے، پہلے سے واپسی کے لئے لی گئی ٹکٹ کے مطابق فلائٹ 4 دن بعد کی تھی، ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ خبر ملی، زینب کو قتل کر کے پھینک دیا گیا ہے۔

پاکستان پہنچے تو چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف کے حصول کے لئے درخواست کی کیونکہ اس وقت تک پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی، ہمارے رشتہ دار دن رات زینب کو تلاش کر رہے تھے لیکن پولیس کی جانب سے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا تھا، اس کیس کو جس انداز میں ڈیل کیا جا رہا تھا، اس پر تحفظا ت تھے۔ اس کے بعد سے اداروں کی جانب سے کی جانے والی اب تک کی تحقیقات سے مطمئن ہوں، ملزم عمران کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں البتہ وہ علاقے کا رہائشی ہے۔

محلے میں جب ڈی این اے ٹیسٹ ہو رہے تھے، اس وقت ملزم نے اس سے بچنے کیلئے ڈرامہ کیا۔ اس کی حرکات مشکوک تھیں جس پر میرے کزن کو شک گزرا اور اس ڈرامے کی وجہ سے اس پر خصوصی نظر رکھی گئی، اس سے پہلے اس کی حرکات ایسی نہیں تھیں۔ ملزم کو پکڑنے پر میں چیف جسٹس، آرمی چیف کا شکر گزار ہوں۔

وزیر اعلیٰ کی بھی خصوصی کاوش تھی، ان کا بھی شکر گزار ہوں۔ ہماری ایجنسیوں اور اداروں آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی، سی ٹی ڈی، فرانزک لیب، جے آئی ٹی سمیت سب کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مل کر کام کیا، ہمارے عزیز اور دوست جو ملنے والی معلومات پولیس کو دے رہے تھے اور ہر ممکن تعاون کر رہے تھے، ان سب کی اجتماعی کاوش سے ہی گزشتہ روز ملزم پکڑا گیا البتہ یہ بات تکلیف دہ ضرور ہے کہ اگر پہلے چار پانچ روز میں یہ کوشش کر لی جاتی تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔

اب حکومت ایسے اقدامات کرے کہ جس سے ایسے مجرموں کی حوصلہ شکنی ہو، ملزم کو سر عام پھانسی دے کر عبرت کا نشانہ بنایا جائے تاکہ ملک میں آئندہ کبھی ایسا واقعہ نہ ہو۔ میری دعا ہے کہ سب کی عزتیں محفوظ رہیں۔ پورے ملک سے فون آرہے ہیں کہ اس کو سر عام پھانسی دی جائے۔

install suchtv android app on google app store