نیشنل اکنامک پالیسی بنانا عدالت کا کام نہیں، جسٹس منیب اختر

 نیشنل اکنامک پالیسی بنانا عدالت کا کام نہیں، جسٹس منیب اختر فائل فوٹو نیشنل اکنامک پالیسی بنانا عدالت کا کام نہیں، جسٹس منیب اختر

دور دراز علاقوں کی احساس محرومی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ موٹر وے سے نیچے جاؤ تو سڑکوں کے حال کا پتہ چلتا ہے۔سپریم کورٹ میں دور دراز علاقوں کی احساس محرومی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

درخواست گزار راجا ناصر کا کہنا تھا کہ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس سال میں 2 مرتبہ ہونا چاہیے، اقتصادی کونسل اجلاس باقاعدگی سے نا بلانا آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہے، صوبائی سطح پر وسائل کی تقسیم متوازن اور برابری کے اصول پر ہونی چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صوبوں کےکئی علاقوں میں ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، صوبوں میں ایسےعلاقے بھی ہیں جہاں عوام کو بالکل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں پینے کا پانی تک میسر نہیں، موٹروے سے نیچے جاؤ تو سڑکوں کے حال کا پتہ چلتا ہے، شہروں میں عالیشان اسکول ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں تعلیم کا برا حال ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ متوازن ترقی اور وسائل کی مساوی تقسیم آئینی ذمہ داری ہے۔

درخواست گزار راجا ناصر کا کہنا تھا کہ لاہور میں اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں، باقی صوبوں کے عوام چیختے رہ جاتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نیشنل اکنامک پالیسی بنانا عدالت کا کام نہیں، کس ضلع کو فنڈز دیے جانے چاہئیں یہ عدالت کیسے کہہ سکتی ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات میں معیار سخت ہو گیا ہے، آرٹیکل 184 تھری کا مقدمہ عام نہیں، بڑا سیریس ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست اچھی ہے لیکن اس میں ترمیم کر لیں، درخواست کی استدعا اور دلائل میں فرق ہے۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو آئینی درخواست میں ترمیم کی اجازت دے دی۔

install suchtv android app on google app store