سپریم کورٹ کی حکومت کو معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کی ہدایت

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا فائل فوٹو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی حکومت کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو عہدے ہٹانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کورونا وائرس کے سلسلے میں اٹھائے گئے حکومتی اقدامات پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت میں چیفس جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا سے مطمئن نہیں ہیں آج ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیں گے۔

جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اس موقع پر ظفر مرزا کو ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا، آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو تبدیل نہ کریں ساتھ ہی انہوں نے استدعا کی عدالت ظفر مرزا کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کر رہی ہے، اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزرا کے اختیارات ہیں، کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث کے مبینہ الزامات ہیں ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ حکومتی کابینہ 50 رکنی ہوگئی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے نقصان ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعداد و شمار بتائے، بریفننگ میں حکومتی ٹیم سے 5 سوال پوچھے تھے، حکومت کی ٹیم کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کوئی ملک کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے پیشگی تیار نہیں تھا۔

چیف جسٹس گلزار احمد وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر برہم

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے پارلیمان قانون سازی کرے گا؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کر چکے ہیں۔

جسٹس قاضی امین احمد نے استفسار کیا کہ سماجی فاصلہ رکھنے کے لیے حکومت کیا عملدرآمد کروا رہی ہے؟ جمعہ کے اجتماع پر اسلام آباد میں جو ہوا کیا کسی کو نظر آیا؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سماجی فاصلے کے لیے عوام کو خود ذمہ داری لینا ہوگی، پولیس یا فوج 22 کروڑ عوام پر فاصلہ رکھنے کے لیے کیسے زبردستی کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں، کیا ملک بند کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا؟

انہوں نے استفسار کیا کہ حکومتی مشیران اور وزرائے مملکت پر کتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے اور ان مشیران وزرا پر اتنی رقم کیوں خرچ کی جا رہی ہے، مشیران معاونین کابینہ پر حاوی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کابینہ کے فوکل پرسن بھی مشیران ہیں، وزیراعظم کی کابینہ غیر مؤثر ہوچکی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ لیکن وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے، کیا پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں، وفاقی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں، ہر سیاستدان اپنا علیحدہ بیان دے رہا ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی لوگوں کے بیانات پر نہ جائے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی صلاحیت کے مطابق تدابیر اختیار کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں اتنے بڑے مینوفیکچررز موجود ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بنا سکتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ایشو عوام کی آزادی اور صحت کا ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو غذا بھی غیر معیاری فراہم کی جا رہی ہے، وڈیو دیکھی ڈاکٹرز کھانے بجائے عام آدمی سے حفاظتی کٹس مانگ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حفاظتی کٹس کی فراہمی ترجیح ہونی چاہیے، ملک میں کورونا کی ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سماجی فاصلے کے لیے لوگوں کو آگاہی کون دے گا؟ ملک میں معیشیت کا پہیہ چلانا ہوگا، ہم لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دے سکتے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو گھروں پر بند کر دیا گیا ہے حکومت ان تک پہنچے، عام بندے کو پولیس پکڑ کر جوتے مار رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے۔

جسٹس قاضی امین کا مزید کہنا تھا کہ لوگ بھوک سے تلملا رہے ہیں ہم انارکی کی جانب بڑھ رہے ہیں، کورونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ صدر مملکت ان حالات میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے؟

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو اس بات کا ادراک ہے کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے اسی لیے وہ کچھ کاروبار کھولنا چاہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ حکومت کورونا سے تحفظ کا آرڈیننس بھی لا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جی وزیراعلیٰ سندھ نے سنی سنائی باتوں پر کراچی کے کئی علاقے بند کردیئے، کل کو پورا کراچی بند کردینگے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے آج کے اجلاس سے کیا ہوگا؟ وہ وقت آرہا ہے لوگ کراچی میں پولیس اور سرکاری گاڑیوں پر حملے کریں گے۔

جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حکومت لوگوں کو سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات دے سکتی ہے۔

جسٹس قاضی امین لوگ سماجی فاصلوں پر عمل نہ کریں تو اس کا مطلب ہے کہ سرنڈر کردیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں 11 یونین کونسلز(یو سیز) بند کردی گئیں، کیا وجہ تھی کہ ان یونین کونسلز کو بند کیا گیا؟

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ان علاقوں سے کیسز رپورٹ ہوئے تھے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان علاقوں سے ایک کیس بتا دیں، جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ (متاثرہ مریضوں کے) نام نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تومسئلہ ہے، وزیراعلیٰ کےکانوں میں کچھ بھی کہہ دو اور سب بند کردو، کیا اس طریقے سے حکومت چلانی ہے؟

ایڈووکیٹ جنررل سندھ نے کہا ہم اپنا بہترین کام کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، آپ ایک کورونا کیس کا تو بتا نہیں سکے۔

 

install suchtv android app on google app store