ایک خواب میں شیخ نور محمد، شاعر مشرق علامہ اقبال کے والد، نے ایک سفید فاختہ دیکھا جو روشنی سے بھرے میدان میں اُڑ رہا تھا۔ فاختہ کبھی زمین کے قریب آیا اور کبھی ستاروں میں بدل گیا۔ آخرکار وہ شیخ کی گود میں گر گیا اور ایک قوس قزح نے زمین اور آسمان کو جوڑ دیا۔ اس خواب نے شیخ کے دل میں یقین جگایا کہ اللہ انہیں ایک ایسا فرزند عطا کرے گا جو دین اسلام کو عظمت بخشے گا۔
یہ خواب علامہ اقبال کی تربیت اور اسلامی فکر کے پیغام میں سنگ میل ثابت ہوا۔ اقبال نے اپنی زندگی اسلامی شعور اور امت مسلمہ کی ترقی کے لیے وقف کر دی۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، جن کی ولادت 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں ہوئی، برصغیر کے عظیم مفکر، شاعر، فلسفی اور قانون دان تھے، جنہیں پاکستان کا نظریاتی باپ بھی کہا جاتا ہے۔
ان کی شاعری اور فلسفہ خودی، اتحادِ امت، ایمان اور اسلامی احیاء کا پیغام دیتے ہیں۔
ان کی اہم کتاب ’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ نے عالمی سطح پر اسلامی فکر کو متاثر کیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:
اقبال کے والد شیخ نور محمد ایک متقی اور صوفی مزاج انسان تھے۔ سیالکوٹ کے مذہبی ماحول نے اقبال کی شخصیت میں گہرائی پیدا کی۔ ابتدائی تعلیم مسجد شیوالا میں ہوئی اور بعد میں مولانا میر حسن کی رہنمائی میں ان کی علمی صلاحیتوں کو نکھارا گیا۔
لاہور کے گورنمنٹ کالج میں فلسفہ، عربی اور انگریزی میں بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے ان کی ذہانت کو سراہا اور یورپ میں تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔
سفرِ یورپ اور فکری کمالات:
1905 میں اقبال یورپ گئے، کیمبرج اور میونخ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ مغربی فلسفہ اور تہذیب کا مطالعہ کرنے کے بعد انہیں اسلامی احیاء اور خودی کے فلسفے کا تصور حاصل ہوا۔
انہوں نے فارسی میں شاعری شروع کی اور ’’اسرارِ خودی‘‘، ’’رموزِ بے خودی‘‘، ’’زبورِ عجم‘‘ جیسی تصانیف سے بین الاقوامی شہرت پائی۔
وطن واپسی، تدریس اور سیاست:
1908 میں وطن واپسی پر لاہور میں وکالت اور تدریس شروع کی۔ انجمن حمایتِ اسلام میں سرگرم رہیں اور مسلمانوں میں خود اعتمادی اور خودی کے فلسفے کو فروغ دیا۔
1910 کی دہائی میں انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
1930 میں الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اقبال نے تاریخی صدارتی خطبہ دیا، جس میں انہوں نے ایک الگ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔
یہی ’’نظریہ پاکستان‘‘ تھا۔ اقبال کا یہ وژن بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں حقیقت بن گیا۔
اقبال کی میراث
اقبال کی شاعری صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک انقلابی فکر ہے جو انسان کو خودی کی پہچان اور اپنے خالق سے تعلق کی دعوت دیتی ہے۔
ان کا پیغام زمان و مکان سے ماورا ہے۔ وہ آج بھی مسلمانوں کو خواب نہیں، عمل کی دعوت دیتے ہیں۔
ان کی وفات 21 اپریل 1938 کو ہوئی، مگر ان کا فکر اور فلسفہ آج بھی زندہ ہے۔
ان کا شہرِ سیالکوٹ، جس نے ایک بچے کو تعلیم دی، آج اس شاعرِ مشرق پر فخر کرتا ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو نئی زندگی عطا کی۔