القادر ٹرسٹ کیس؛ عمران خان کی 2 ہفتوں کیلئے ضمانت منظور

عمران خان فائل فوٹو عمران خان

 اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں دو ہفتوں کی ضمانت منظور کرلی۔ ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد ہائی کورٹ کے کمرہ نمبر 2 میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا ، جس میں بعد ازاں جمعہ کا وقفہ کر دیا گیا تھا۔

اسی اثنا میں کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل نے عمران خان کے حق میں نعرے لگائے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے کیسے سماعت کر سکتے ہیں، عدالت کی تکریم بہت ضروری ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نعرے لگانے والے وکیل کا تعلق ہم سے نہیں ہے تاہم سماعت کرنے والا بینچ اٹھ کر چلا گیا اور نماز جمعہ کا وقفہ کردیا گیا۔

بعد ازاں، عدالت میں وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوگیا۔

عمران خان قانونی ٹیم کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں، ضمانت کی درخواستوں پر خواجہ حارث نے دلائل دینے شروع کیے۔

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ 9 مئی کو درخواست دائر کررہے تھے کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا، انہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان کو گرفتاری کے بعد انکوائری رپورٹ دکھائی گئی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ میڈیا سے پتا چلا کہ انکوائری تفتیش میں تبدیل کر دی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں آپ کو سوال نامہ دیا گیا؟

مجھے دوبارہ گرفتار کیا جاسکتا ہے: عمران خان 

صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں دوبارہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا اسٹیبشلمنٹ سے رابطے ہوگئے، آپ کی ڈیل کی اطلاعات ہیں، جس پر عمران خان نے مسکراتے ہوئے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔

کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ گرفتاری کا ردعمل آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب مجھے اندر ڈال دیا گیا تو میں کیسے ذمہ دار ہو سکتا ہوں؟ سپریم کورٹ میں کہا کہ جو ہوا ٹھیک نہیں ہوا، یہ ملک میرا ہے عوام میری ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں ہائی کورٹ میں تھا، گرفتاری کے وقت سر پر ڈنڈا مارا گیا، رینجرز نے مجھے گرفتار کیا میں گرفتاری مزاحمت نہیں کروں گا۔

انہوں نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ نیب کی آفیشل ٹیم نے اہلیہ بشری بی بی سے لینڈ لائن پر بات کرائی لیکن بات نہیں ہوسکی، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مسرت جمشید چیمہ سے بھی نیب کی لینڈ لائن سے بات ہوئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ میں ہائی کورٹ میں بیٹھا تھا، مجھے گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، مجھے اغوا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا جب مجھے حراستی مرکز میں لے گئے تو پہلی مرتبہ وارنٹ دکھایا گیا، ایسا کہاں ہوتا ہے یہ تو جنگل کا قانون ہے، ایسے جیسے مارشل لا ڈیکلیئر ہوگیا ہو۔

گرفتاری کے بعد ہوئے خونریز ہنگاموں کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ کل جب میں عدالت میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ 40 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

عمران خان کی عدالت آمد

اس سے قبل عمران خان اپنے وکلا اور بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں عدالت پہنچے جبکہ شہر میں ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے نکلنے والے حامیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عدالت کے سامنے جمع ہونے والے پی ٹی آئی کے وکلا نے ’خان تیرے جانثار، بے شمار بے شمار‘ اور ’زندہ ہیں وکلا زندہ ہیں‘ کے نعرے لگائے جس کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے ایک مکا ہوا میں لہرایا۔

عدالت پہنچنے کے بعد عمران خان ڈائری برانچ میں گئے جہاں ان کی بائیو میٹرک تصدیق کا عمل مکمل کیا گیا، ان کی جانب سے ان کے وکلا نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت کے علاوہ 4 دیگر درخواستیں بھی دائر کیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی عمران خان کے خلاف جتنے مقدمات درج ہوچکے ان کی تفصیلات فراہم کی جائے اور ان تمام مقدمات کو یکجا کردیا جائے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی القادر ٹرسٹ کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے 2 رکنی ڈویژن بینچ تشکیل دیا تھا۔

عمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقع عدالت کے اطراف میں پی ٹی آئی کے کارکنان جمع ہوگئے تھے جنہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے منتشر کردیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا اور انہیں آج اسلام ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

سابق وزیر اعظم کی متوقع پیشی پر کارکنان کے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے خدشے کے پیشِ نظر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بھاری تعداد تعینات کی گئی ہے۔

اسلام آباد میں حالات معمول کے مطابق ہیں، پولیس

اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر سلسلہ وار بیانات جاری کر کے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں مجموعی طور پر حالات معمول کے مطابق ہیں۔

تاہم یہ بھی بتایا گیا کہ سری نگر ہائی وے ٹریفک کےلیے بند کردی گئی ہے، شہریوں سے گزارش ہے کہ متبادل راستے اختیار کریں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ کچھ مقامات پر خلاف قانون جمع ہونے والے افراد پر کارروائی کرتے ہوئے چند افراد کو حراست میں لیا ہے، عوام سے گزارش ہے کہ قانونی عمل میں پولیس سے تعاون کریں۔

اسلام آباد پولیس نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف سے غیر متعلقہ افراد کو ہٹادیا گیا ہے، ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری تمام عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔

ایک اور بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی مکمل تعمیل کی گئی ہے، عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں، عوام سے گزارش ہے کہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔

پولیس نے بتایا کہ ریڈ زون میں فوج تعینات ہے اور فوج کے دستوں کا گشت جاری ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد کے امن عامہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، شہر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔

قبل ازیں اسلام آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، چنانچہ کسی بھی ریلی، اجتماع یا خطاب کی اجازت نہیں ہوگی۔

ساتھ ہی پولیس نے شہریوں سے درخواست کی تھی کہ دارالحکومت کے سیکٹر جی-10 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔

install suchtv android app on google app store