افغانستان میں زیر تعلیم پاکستانی طالبات کا مستقبل خطرے میں

افغانستان میں زیر تعلیم پاکستانی طالبات فائل فوٹو افغانستان میں زیر تعلیم پاکستانی طالبات

افغانستان کے صوبہ جلال آباد اور دیگر میں زیر تعلیم شعبہ میڈیکل کی پاکستانی طالبات نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اپنے حال پر رحم کرنے کی اپیل کر ڈالی۔

پاکستان کی 100 طالبات جو کہ افغانستان کہ صوبہ جلال آباد اور دیگر صوبوں میں میڈیکل کی تعلیم کے لئے عازم سفر ہوئیں۔ ان طالبات کا تعلق صوبہ خیبر پختون خواہ سے ہے اور ان کے بقول پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کا میرٹ زیادہ اور نجی اداروں کی فیس زیادہ ہونے کے باعث انھیں مجبورا افغانستان میں داخلہ لینا پڑا۔

طالبات کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں جب افغانستان میں طالبات پر تعلیم کے دروازے بند ہورہے ہیں تو ہمارا مسقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ ایک طالبہ ثنا خان کہتی ہیں کہ ہمیں جلال آباد میں پڑھتے دو سے تین سال ہوچکے ہیں، ہمارے امتحانات سے قبل ہم پر پابندی عائد کردی گئی کہ ہم پڑھنے نہیں جاسکتیں اب ہم کہاں جائیں گی کس کے سامنے اپنا مدعا بیان کریں گی، ہماری آخری امید ہمارے اپنے ملک کی حکومت ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائے۔

پریس کانفرنس کرتی ایک اور طالبہ ارم روحان کہتی ہیں، "ہم اسلام آباد میں تین دنوں سے التجائیں کر رہے ہیں، ہم سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں کہ ہماری اپیل پر غور کیا جائے، اگر ہماری جگہ بلاول بھٹو کی بہن ہوتی کیا وہ اس کو بھی ایسا خوار ہونے دیتے، ہم نے بارہا ان سے ملنے کی کوشیش کی لیکن کچھ مثبت جواب نہیں آرہا"۔

طالبہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم متوسط طبقے کی بچیاں ہیں جن کے والدین پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، حکومت پاکستان ہمارے سر پر ہاتھ رکھے ل، ہم وزیراعظم، وزیر خارجہ اور متعلقہ اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ کسی بھی صوبے کے سرکاری میڈیکل کالج میں ہمارے لئے نشستیں مختص کریں تاکہ ہم اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

اس موقع پر طالبات کے والدین کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت مشکلات دیکھیں اور اپنی بچیوں کو افغانستان میں اس لئے داخل کرایا کہ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کرسکیں لیکن اگر حکومت پاکستان ان بچیوں کی سرپرستی نہیں کریگی تو پھر شاید بچیاں اعلی تعلیم اور ترقی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں گی اس لئے ہماری اپیل پر غور کیا جائے۔

install suchtv android app on google app store