بلوچستان امن و امان کیس میں سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے زیر صدارت 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
بلوچستان امن و امان کیس کے حوالے سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا، عدالت نے اس پر فریقین سے جواب طلب کرلیا۔ بلوچستان امن و امان کیس میں آئی جی ایف سی، چیف سیکرٹری بلوچستان اور وفاقی سیکرٹریز داخلہ و دفاع سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ 1976ء میں میرے بھائی اسد اللہ مینگل کے لاپتہ ہونے کا پہلا واقعہ رونما ہوا۔ میرے بھائی کو اغواء کیا گیا تھا۔ آج تک نہیں جانتا وہ کہاں ہیں یا ان کی قبر کہاں واقعہ ہے۔ سلسلہ وہیں رُک جاتا تو لاپتہ افراد کا معاملہ آج اتنا سنگین نہ ہوتا۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومتیں ہمیشہ لاپتہ افراد کا مسئلہ نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ ہمیں ہر بار تسلیاں دی جاتی ہیں اور ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سیاسی ہے۔ نااُمیدی گناہ ہے، ہم نے تمام اداروں کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔ اب ان اداروں سے کوئی بھی اُمید رکھنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اب ان اداروں پر مزید اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر دور میں ہمارے مسائل کو نظر انداز کیا گیا۔ ٹھوس اقدامات کے بغیر معافی مانگنے یا پیکج دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ عدالت میں اس لئے آئے کیونکہ 65 سال بعد نااُمیدی ختم ہونے کی ہلکی سی اُمید نظر آئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ ہم سیاسی لوگ ہیں نہ سیاسی ڈائیلاگ کرسکتے ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے آگے بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔ معاملہ ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ہر لاپتہ شخص کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ ان مقدمات کو ہائی کورٹ کے جج سنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام خفیہ اور کھلے آپریشن بند کئے جائیں، تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور ڈیتھ سکواڈ ختم کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام نقل مکانی اور بے گھر ہونے والوں کو آبائی گھروں میں آباد کروایا جائے۔