چین دنیا بھر میں کورونا ویکسینز کے ڈوز فراہم کرنے کے لیے تیار

چین میں کورونا ویکسینز کے ڈوز فائل فوٹو چین میں کورونا ویکسینز کے ڈوز

چین دنیا بھر میں اپنی تیار کردہ کورونا ویکسینز کے لاکھوں ڈوز فراہم کرنے کے لیے تیاریاں مکمل کرچکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق شینزن انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے گوداموں میں سفید چیمبرز قطار در قطار موجود ہیں، جن کے باہر ڈسپلے سے اندر کے درجہ حرارت کو دیکھا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گودام کے اس حصے میں داخل ہونے والے ہر فرد کو یا تو 2 ہفتے تک مکمل قرنطینہ میں رہنا ہوگا یا سر سے پیر تک حفاظتی سوٹ پہننا ہوگا۔‎

یہ خصوصی کمرے مجموعی طور پر 350 اسکوائر میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں اور بہت جلد یہ چینی ساختہ کووڈ 19 ویکسینز سے بھرے جائیں گے، جس کے لیے ریگولیٹری منظوری کا انتظار کیا جائے گا۔

خصوصی کمروں میں پہنچانے کے بعد کورونا ویکسینز کو مال بردار طیاروں کے کنٹرول درجہ حرارت والے کمپارٹمنٹس میں رکھا جائے گا اور اس کے بعد دنیا بھر کے ممالک میں روانہ کیا جائے گا۔

آنے والے مہینوں میں چین کی جانب سے کورونا وائرس ویکسینز کے کروڑوں ڈوز ان ممالک میں بھیجے جائیں گے جہاں اس وقت اس کی کمپنیوں کی جانب سے ان ویکسینز کے آخری مرحلے کے ٹرائلز ہورہے ہیں۔

چینی قیادت نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو کامیاب ویکسینز تک رسائی ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرے گی۔

امریکا کے کونسل آن فارن ریلیشن کے عالمی صحت کے ماہر یان زونگ ہوانگ کے مطابق ان ویکسینز کو چین کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر اپنا اثررسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

چین میں اس وقت 4 کمپنیوں کی جانب سے 5 ویکسینز انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں اور ان کے نتاج کے بعد ریگولیٹری منظوری حاصل کی جائے گی۔

چین میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد بہت کم ہونے کے باعث ویکسینز کے آخری مرحلے کی آزمائش کم از کم 16 ممالک میں جاری ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اس کے عوض ان میں سے بیشتر ممالک کو کامیاب ویکسینز تک ابتدا میں رسائی فراہم کی جائے گی اور کچھ کیسز مین مقامی سطح پر تیاری کے لیے ٹیکنالوجی بھی فراہم کی جائے گی۔

سینویک بائیوٹک کی جانب سے ویکسین کی تیاری ابھی مکمل نہیں ہوئی مگر اس نے برازیل کو 4 کروڑ 60 لاکھ جبکہ ترکی کو 5 کروڑ ڈوز فراہم کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔

کین سینو بائیولوجکس کی جانب سے 5 ممالک میں ویکسین کے ٹرائل پر کام ہورہا ہے اور ان میں سے میکسیکو کو وہ 3 کروڑ 50 لاکھ ڈوز فراہم کرے گی۔

چائئنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (چین کے سرکاری چائنا فارما سیوٹیکل گروپ یا سینوفارم) کی جانب سے 2 ویکسینز تیار کی جارہی ہیں جن کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل 10 ممالک ممیں جاری ہیں۔

ان ویکسینز کو ایمرجنسی استعمال کے لیے بھی منظور کیا جاچکا ہے تاہم کمپنی نے ممالک سے معاہدوں کے حوالے سے زیادہ تفصیلات ظاہر نہیں کیں، مگر متحدہ عرب امارات کو اگلے سال ساڑھے 7 کروڑ سے 10 کروڑ ڈوز فراہم کیے جائیں گے۔

سینوفارم کے چیئرمین لیو جنگ زین نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ درجنوں ممالک نے کمپنی کی ویکسینز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے ممالک کے نام یا ان کو فراہم کیے جانے والے ڈوز کے بارے میں کچھ نہیں بتایا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ 2021 میں ایک ارب سے زیادہ ڈوز فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

چین کو دیگر ممالک کے حوالے سے یہ سبقت بھی حاصل ہے کہ وہاں اب کورونا کی وبا پر قابو پایا جاچکا ہے اور اسے اپنی آبادی کے لیے ہنگامی بنیاادوں پر ویکسین فراہم کرنے کی ضرورت نہیں۔

یان زونگ ہوانگ کے مطابق اس سے چین کو فائدہ ہوگا اور وہ ایسے ممالک سے معاہدے کرسکے گا جہاں ویکسینز کی ضرورت ہوگی۔

چین کے مقابلے میں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پہلے امریکی عوام کو ترجیح دی جارہی ہے اور اس کے بعد دیگر ممالک کو رسائی دی جائے گی۔

یان زونگ ہوانگ نے بتایا کہ اب تک ہم نے سنا نہیں کہ امریکا کی جانب سے ویکسین کی کچچھ فیصد مقدار غریب ممالک کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہو، تو اس سے چین کو ویکسین کو خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا بہتر موقع مل سکے گا۔

رواں سال اکتوبر میں چین عالمی ادارہ صحت کے حمایت یفتہ گلوبل منصوبے کا حصہ بن گیا تھا، جس کا مقصد کووڈ 19 ویکسینز کی امیر اور غریب ممالک تک فوری اور مساوی بنیادوں پر فراہمی یقینی بنانا ہے۔

اس منصوبے کو کوویکس کا نام دیا گیا ہے اور یہ حکومتوں کی جانب سے کورونا ویکسینز کے ذخیرہ اندوز کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہے اور پوری توجہ ہر ملک میں وائرس سے زیادہ خطرے سے دوچار افراد کو ویکسین فراہم کرنے پر مرکوز کرنا ہے۔

امریکا نے اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کیا جس سے عالمی سطح پر طبی قیادت کا خلا چین نے بھرا۔

آغاز سے ہی چینی قیادت کی جانب سے مسلسل زور دیا جارہا ہے کہ چین کی ویکسینز کو دوسروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا بالخصوص ترقی پذیر دنیا کے ساتھ۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل متعدد ممالک کو کورونا کی وبا کے باعث مشکلات کا سامنا ہوا ہے اور حال ہی میں اس حوالے سے چینی حکام نے ہیلتھ سلک روڈ پر بات چیت کو آگے بڑھایا ہے۔

رواں سال مئی میں چین کے صدر نے اگلے 2 سال کے دوران 2 ارب ڈالرز عطیہ کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ ممالک کو وبا کے اثرات پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔

چین کی جانب سے لاطینی امریکی ممالک اور کیرئیبین کے خطے کے لیے ایک ارب ڈالرز قرضے کی پیشکش کی گئی تاکہ انہیں کورونا ویکسینز تک رسائی حاص ہوسکے۔

فائزر اور موڈرینا کی ویکسینز کے برعکس چینی ویکسینز کو ایک اہم سبقت حاصل ہوگی، یعنی انہیں محفوظ رکھنے کے لیے بہت زیادہ منفی درجہ حرارت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اس سے ان کی ٹرانسپورٹیشن اور تقسیم زیادہ آسان ہوگی، خاص طور پر ایسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں کولڈ اسٹوریج کی سہولیات موجود نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے امیونزائیشن اینڈ ویکسینز کے شعبے کی ڈائریکٹر کیٹ اوبرائن نے گزشتہ ماہ ایک نیوز کانفرنس کے دوران ویکسینز کی تیاری کو ماؤنٹ ایورسٹ میں ایک بیس کیمپ کی تعمیر سے تشبیہ دی تھی۔

انہوں نے کہا 'مگر چوٹی کو سر کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب ویکسینز کو لوگوں تک پہنچایا جائے گا'۔

فائزر اور موڈرینا کی ویکسینز میں وائرس کے جینیاتی مواد کے ٹکڑوں جن کو ایم آر این اے کا نام دیا گیا ہے، کو تیاری کے لیے استعمال کیا گیا۔

اس طرح کی ٹیکنالوجی اب تک کسی ویکسین میں استعمال نہیں ہوئی تھی۔

مگر ایم آر این اے کمرے کے درجہ حرارت میں تیزی سے تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے، یہی وجہ ہے کہ موڈرینا کی ویکسین کو محفوظ رکھنے کے لیے منفی 4 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوگی یا فریج کے درجہ حرارت میں 30 دن تک رکھی جاسکتی ہے، جبکہ فائزر کی ویکسین کے لیے منفی 75 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوگا اور باہر نکالے جانے کے 5 دن کے اندر استعمال کرنا ہوگی۔

اس کے مقابلے میں سینوفارم اور سینویک کی ویکسینز میں پرانے طرز کی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے جو عرصے سے دیگر ویکسینز جیسے پولیو میں موثر بھی ثابت ہوئی ہے۔

ان کی ویکسینز میں ایک ناکارہ کورونا وائرس استعمال کیا گیا جو جسم میں مدافعت پیدا کرنے کا کام کرے گا اور ان کو مھفوظ رکھنے کے لیے 2 سے 8 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوگی۔

کین سینو کی ویکسین میں عام نزلہ زکام کا وائرس ایڈنوائرس 5 وائرس استعمال کیا گیا جن کے ساتھ کورونا وائرس کے جینیاتی حصوں کو جسم میں منتقل کیا جائے گا اور یہ بھی 2 سے 8 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں محفوظ رہ سکتی ہے۔

یہ درجہ حرارت ٹرانسپورٹیشن کے لیے برقرار رکھنا ہوگا اور اس کے لیے ایئرپورٹ اسٹوریج کی ضرورت پڑی تاکہ عالمی سطح پر ان کو تقسیم کیا جاسکے۔

چین کی ای کامرس کمپنی علی بابا کے لاجسٹک ادارے کیناؤ کی جانب سے ان ویکسینز کی تقسیم ین مدد فراہم کی جائے گی اور اس کا کہناا ہے کہ درجہ حرارت کنٹرول اسٹرکچر تیار ہے۔

اس کمپنی نے شینزن انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے شراکت داری کی ہے، جہاں 2019 میں منجمد اشیا اور خوراک کے لیے کولڈ چین گودام تعمیر کیا گیا تھا۔

رواں سال کے شروع میں اس مقام کو کورونا وائرس ٹیسٹنگ کٹس اور اب ویکسینز کو اسٹور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ایئرپورٹ نے اپنی ویب سائٹ میں بتایا ہے کہ وہ شینزن کو کووڈ 19 ویکسین گلوبل ڈیلیوری مرکز بنانا چاہتا ہے۔

کیناؤ نے ایتھوپین ایئرلائنز سے شراکت داری کی ہے جو چینی ویکسینز کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ منتقل کرے گی۔

مگر چینی کمپنی عالمی سطح پر زیادہ بہتر رسائی کے لیے مزید روٹس کا اضافہ بھی کرنا چاہتی ہے۔

کیناؤ کے سی ای او وان لین نے بتایا کہ یقیناً ابھی واضح نہیں کہ طلب کتنی ہوگی مگر ہم اس کے لیے تیار رہنے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھا رہے ہیں۔

install suchtv android app on google app store